علمبردار بھی یہ نہ کہہ سکے کہ اس میں جمہوریت کے اصولوں کوپیش نظر نہیں رکھا گیا۔یہ قرارداداسلامی د ستوری اصولوں اور جدید نمائندہ حکومت کی ضرورتوں کے درمیان ایک مثالی ‘ متوازن اور ہم آہنگ سلسلہ ا ستدلال پیش کرتی ہے۔‘‘[1]
۱۹۴۹ء میں ہی پاکستان کی مرکزی ا سمبلی نے ایک قانون پاس کیا‘ جس میں یہ کہا گیا کہ مسلمانوں کے نکاح و طلاق کے مسائل شریعت کے مطابق حل کیے جائیں گے بشرطیکہ دونوں فریق مسلمان ہوں اور شریعت اسلامیہ کے مطابق اپنا فیصلہ چاہتے ہوں ۔یہ ایک دو سطری قانون تھا جو کئی سالوں تک مشرقی و مغربی پاکستان پر نافذ رہا۔
۱۹۵۰ء ہی کے لگ بھگ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں آئین سازی کے لیے سرکاری سطح پر ایک بورڈ قائم کیاگیا‘ جس کانام’بورڈ آف تعلیمات اسلامیہ‘ رکھا گیا۔ اس بورڈ میں اگرچہ اس وقت کے نامور دانشور اور علماء مثلاً سید سلیمان ندوی‘ ڈاکٹر محمد حمید اللہ‘ مفتی محمدشفیع صاحب‘مولانا ظفر أحمد انصاری اور مفتی جعفرحسین رحمہم اللہ وغیرہ شامل تھے لیکن حکومت نے اس بورڈ کی پیش کی گئی سفارشات کو قانون سازی میں کوئی اہمیت نہ دی۔
جب بھی علماء یا دینی حلقوں کی طرف سے حکمران طبقے سے اسلامی قانون کے نفاذ کا مطالبہ کیا جاتا تو عام طور پر ان کا جواب یہ ہوتا تھاکہ کون سا اسلام نافذ کیاجائے؟حنفی‘ بریلوی‘ شافعی‘ اہل تشیع یا اہل الحدیث کا؟چناچہ جنوری۱۹۵۱ء میں ملک کے نامور شیعہ‘ بریلوی‘ دیوبندی اور اہلحدیث علماء کی ایک جماعت نے بائی س نکات پر مشتمل ایک متفقہ فارمولا منظور کیا۔ڈاکٹر محموداحمد غازی لکھتے ہیں :
’’ان حضرات نے بائی س نکات پر مشتمل ایک ایسا مسودہ تیار کیا جس کے بارے میں ان حضرات نے اپنے انتہائی علم و بصیرت کے مطابق یہ قرار دیاکہ اگر بائی س نکات کسی د ستور میں سمو دیے جائیں تو وہ د ستور اسلامی د ستور کہلائے گا‘ اس د ستور کی بنیاد پر جو اسلامی ریا ست قائم ہوگی وہ اسلامی ریا ست کہلائے گی اور وہ ریا ست جو قوانین نافذ کرے گی وہ اسلامی قوانین ہوں گے۔‘‘[2]
اس فارمولے پر د ستخط کرنے والوں میں مولانا مودودی‘ سید سلیمان ندوی‘ مفتی محمد شفیع‘ مولانا ظفر أحمد انصاری‘مولانا ادری س کاندھلوی‘ مولانا محمد علی جالندہری‘مولانا محمد یو سف بنوری‘ مولانا عبد الحامد بدیوانی‘پیر مانکی شریف اور مفتی جعفر حسین رحمہم اللہ وغیرہ جیسی نامور شخصیات شامل تھیں ۔
علماء اس بائی س نکاتی فارمولے کو بنیاد بناتے ہوئے نفاذ اسلام کی کوششیں کرتے رہے یہاں تک کہ ۱۹۵۴ء میں جو د ستور تیار ہوا اس کے آرٹیکل چار میں یہ طے پایا کہ اگر کوئی بھی شہری ملک کے کسی بھی قانون کے بارے میں سپریم کورٹ میں یہ دعوی دائر کرے کہ وہ اسلام کے خلاف ہے تو سپریم کورٹ کویہ اختیار حاصل ہو گا کہ وہ ایسے قانون کو اگر شریعت سے متعارض سمجھے تو ا سے کالعدم قرار دے۔اسلامی شریعت کے نفاذ میں یہ ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔
۲۳ مارچ۱۹۵۶ء کو پاکستان کا پہلا د ستور نافذ ہوا جس میں قرار داد مقاصد کو اس د ستور کے مقدمے اور بائی س نکاتی فارمولے کی بعض باتوں کو ریا ستی پالی سی کے رہنما اصولوں کے طور پر شامل کر لیا گیا۔ڈاکٹر تنزیل الرحمن لکھتے ہیں :
’’۲۳ مارچ ۱۹۵۶ء کو اسلامی جمہوریہ پاکستان کا پہلا د ستور نافذ ہوا۔ اس د ستور کے ذریعہ مسلمانوں کی زندگیوں کو قرآن مجید اور سنت ر سول کے مطابق بنانے کا موقع فراہم کیا گیا۔چناچہ د ستور کی دفعہ ۱۹۸ کی رو سے یہ قرار دیا گیا کہ اس ملک میں ایسا کوئی قانون نہیں بنایا جا سکے گاجو قرآن پاک اور سنت نبوی میں مذکور اسلامی احکام و تعلیمات کے منافی ہو۔ ساتھ ہی اس امر کا بھی اظہار کیاگیاکہ موجودہ قوانین کو قرآن پاک و سنت کے مطابق بنایا جائے گا۔۔۔د ستور پاکستان ۱۹۵۶ء کی دفعہ ۱۹۷ کے تحت صدر مملکت کو اس امر کا اختیار دیا گیاکہ وہ ایک اسلامی تحقیقاتی ادارے کی تشکیل کرے گاجو مسلم معاشرے کو صحیح اسلامی بنیادوں پر قائم کرنے میں ممد و معاون ہو۔‘‘[3]
|