Maktaba Wahhabi

173 - 214
اکتوبر ۱۹۵۸ء میں پاکستان میں مارشل لاء لگنے کی وجہ سے ۱۹۵۶ء کا ئین کالعدم قرار پایا۔ جبکہ۱۹۶۱ء میں مارشل لاء حکومت نے مغربی پاکستان میں ’ نفاذ شریعت آرڈینن س‘ جاری کیا۔ڈاکٹر محمود أحمد غازی لکھتے ہیں : ’’۱۹۶۱ء میں اس وقت کی حکومت مغربی پاک ستان(اب پاک ستان)نے’ نفاذ شریعت آرڈینن س‘ جاری کیاجن کے مطابق مسلم عائلی قوانین سے متعلق تمام معاملات مثلا شادی‘ طلاق‘ حضانت‘ وراثت‘ ہبہ اور وقف کے بارے میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ یہ سب معاملات شریعت کے مطابق طے ہوں گے۔ان موضوعات سے متعلق اسلامی احکام کو تحریری طور پر مدون کیے بغیربراہ را ست شرعی قوانین نافذ کر دیے گئے۔‘‘[1] ۱۹۶۲ء ہی میں اس وقت کے گورنرمغربی پاکستان نے ایک قانون نافذ کیا‘ جس کے مطابق اگر کوئی ایک فریق بھی نکاح‘ طلاق‘ وراثت اور وصیت وغیرہ جی سے خانگی و معاشرتی معاملات میں شریعت کے مطابق فیصلہ چاہے گا‘ تو فریقین کے مابین رائج الوقت قانون کی بجائے شریعت کے مطابق فیصلہ ہوگا۔ اس میں ایک ا ستثناء پھر بھی باقی رہا۔ڈاکٹر محمود أحمد غازی اس کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’لیکن اس میں ایک ا ستثناء موجود رہا‘ جس کا ماحصل یہ تھا کہ والیان ریا ست یا وہ لوگ جن کو اس قانون کی رو سے خاص ا ستحقاق حاصل تھا‘ ان کے لیے وراثت کا قانون انگریزوں کے اصول ہی پر جاری رہے گا۔ وہ یہ تھا کہ نواب یا جاگیر دار کی وفات کے بعد اس کا سب سے بڑا بیٹا وارث ہوگااور سب سے بڑے بیٹے کی وفات کے بعد اس کا سب سے بڑا بیٹا وارث ہو گا۔ اس میں چھوٹے بیٹوں ‘ بیٹیوں ‘ بہنوں سب کو ہر قسم کی جائیداد کے حق وراثت سے محروم کر دیا گیا تھا۔یہ قانون برصغیر میں کم وبیش سو سال جاری رہا۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ خواتین کے حقوق کی علمبردار کسی تنظیم نے کبھی اس کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھائی۔‘‘[2] گورنر پاکستان ملک محمد امیر خان نے ا سی دوران ایک ایسے آرڈیننس کا بھی اجراء کیا جس میں طوائفوں کے پیشے کوممنوع اور قابل سزا جرم قرار دیاگیا۔نتائج سے قطع نظر فی نفسہ یہ ایک خوش آئند اقدام تھا۔ ۱۹۶۲ء ہی میں فیلڈ مارشل أیوب خان کے دور میں مسلمانوں کے عائلی قوانین کے حوالے سے ’مسلم عائلی قوانین آرڈینن س‘ کے نام سے ایک قانون نافذ کیا گیا۔ اس آرڈیننس میں یتیم پوتے کی وراثت‘ طلاق اور دو سری شادی کے حوالے سے بعض ایسے قوانین تھے جو اسلامی تعلیمات کے منافی تھے۔مثال کے طور پر اس قانون میں یہ بات طے کی گئی کہ پہلی بیوی کی رضامندی کے بغیرشوہر کو دو سری شادی کی اجازت نہ ہوگی اور اگر کسی نے ایسی شادی کی تو وہ قانوناً ناجائز تصور ہو گی۔جدت پسندوں نے اس آرڈیننس کی تائید کی جبکہ علماء کے حلقوں کی طرف سے اس پرشدید تنقید ہوئی۔ ۱۹۶۲ء میں اس وقت کی مارشل لاء حکومت نے ایک د ستور نافذ کیا‘ جس میں بعد ازاں شدید عوامی دباؤ کے نتیجے میں مملکت پاکستان کے نام کے ساتھ ’اسلامی جمہوریہ‘ کا لفظ بھی لگایا گیا۔ اس د ستور کے مطابق بھی اس اصول کو تسلیم کیا گیا کہ پاکستان میں کوئی بھی قانون سازی قرآن و سنت کے منافی نہ ہوگی۔ڈاکٹر تنزیل الرحمن لکھتے ہیں : ’’د ستور کی دفعہ ۱۹۹ کے تحت صدر مملکت کو اسلامی نظریہ کی مشاورتی کونسل کے قیام کا اختیار دیاگیاتاکہ یہ کونسل پاکستان کے مسلمانوں کو ہر شعبہ زندگی میں اسلام کے اصولوں اور تصورات کے مطابق عمل کرنے کی ترغیب اور امداد دے سکے۔نیز یہ بھی جائزہ لے سکے کہ آیا کوئی مجوزہ قانون اسلام کے خلاف یا منافی ہے؟۔‘‘[3] ا سی د ستور کی دفعہ ۲۰۷ کے تحت صدر کو ’ادارہ تحقیقات اسلامی‘ کے نام سے ایک ایسا ادارہ قائم کرنے کا بھی اختیار دیا گیا جو اسلام اور اسلامی تعلیمات کے بارے میں اپنی تحقیقات پیش کرے۔ا سی ادارے کے تحت کئی ایک علمی منصوبے پایہ تکمیل کو پہنچے جن میں ڈاکٹر تنزیل الرحمن کا
Flag Counter