Maktaba Wahhabi

174 - 214
’مجموعہ قوانین اسلام ‘ ایک نمایاں و گراں قدر کوشش ہے۔ اس ادارے میں بعد میں کچھ غیر سنجیدہ افراد بھی شامل ہو گئے جس کی وجہ سے اس ادارے کی بہت بدنامی ہوئی ۔ ڈاکٹر محمد أمین حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’حکومت نے خود ہی ادارے کو شایان شان اہمیت نہ دی‘ اس کااپنا کیم پس نہیں ‘نہ ہی اس کو یونیور سٹی کا درجہ دیا گیا‘ یہ مختلف ادوار میں مختلف وزارتوں سے من سلک رہا اور اس چیز نے اس کی کارکردگی کو بہت بری طرح متاثر کیا۔۔۔ڈاکٹر فضل الرحمن اور ان کے ساتھیوں کی تجدد پسندی نے بھی اس ادارے کے وقاراور سنجیدگی کو نقصان پہنچایاہے۔حکومتی ذرائع سے بھی اس کی کارکردگی کو کبھی نمایاں نہیں کیا گیا۔‘‘[1] ۱۹۷۳ء میں جناب ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ایک نیا آئین تیار ہوا جو اگست ۱۹۷۳ء میں نافذ ہوا۔’اسلامی نظریہ کی مشاورتی کون سل‘ کو ’اسلامی نظریاتی کون سل‘ کانام دیا گیا۔ اس کونسل نے ۱۹۷۳ء میں کام شروع کیا اور تقریباً تین سالوں کے دوران بہت سی مفید سفارشات پیش کیں جن میں سے چند ایک کو چھوڑ کراکثر سرد خانے کی نذر ہو گئیں ۔ڈاکٹر محمود أحمد غازی لکھتے ہیں : ’’یہ تمام سفارشات و تجاویز متعلقہ سرکاری فائلوں میں دفن ہو گئیں ۔البتہ کونسل نے جو سفارشات امتناع شراب‘ گھوڑ دوڑ پرجوئے کے خاتمے‘نائٹ کلبوں کی بندش اور جمعۃ المبارک کی تعطیل کے بارے میں دیں ‘ حکومت نے اپریل ۱۹۷۷ء کے ہنگامہ خیز ایام میں ان کو منظورکر کے پاکستان میں شراب‘ گھوڑ دوڑ پر جوا اور نائٹ کلبوں پر پابندی لگا دی اور جمعہ کے دن ہفتہ وارعام تعطیل کا اعلان کر دیا۔‘‘[2] جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں اس کونسل میں جلیل القدر علماء شامل تھے لیکن بعد کے ادوار میں عموماً ایسے افراد کو کونسل کی رکنیت مہیا کی گئی جن کی دینی حیثیت علماء‘ دینی حلقوں اور عامۃ الناس کے ہاں معتبر نہ تھی۔خاص طور پر جنرل پرویز مشرف(۱۹۹۹ء تا ۲۰۰۸ء)کی تشکیل کردہ نظریاتی کونسل اکثر وبیشترایسے ارکان پر مشتمل تھی جن کی دینی حیثیت یاعلمی اہلیت مملکت کے جمہور عوام کے ہاں مشتبہ و مشکوک تھی۔ یہی وجہ ہے کہ کونسل اپنی نت نئی سفارشات کی بنیاد پر علمی و عوامی حلقوں میں عرصہ دراز سے مسلسل تنقید کا نشانہ بنتی چلی آ رہی ہے۔ اس کونسل میں اگر کوئی دو چار مولویوں کو رکنیت فراہم بھی کی گئی تو وہ بھی علم و تقوی کو معیار بناتے ہوئے نہیں بلکہ خوشامداور سیا سی وابستگیوں کی بنیاد پر وہ مجلس کے رکن بننے کے اہل ٹھہرے۔ ۱۹۷۴ء میں پارلیمنٹ میں قادیانیوں کا مسئلہ اٹھایا گیا تو پارلیمنٹ نے دونوں فریقین کے دلائل سننے کے بعد چوتھا آئینی ترمیمی ایکٹ منظور کیا۔ اس ایکٹ کی رو سے قادیانیوں اور مرزا غلام أحمد قادیانی کے دو سرے پیروکاروں کو قانونی اور آئینی طور پر غیر مسلم قراردیااور اس شخص کو آئینی طور پر مسلمان تسلیم کیاگیا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی مانتا ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی بھی ظلی یا بروزی نبوت کا قائل نہ ہو۔ ۱۹۷۷ء میں جنرل ضیاء الحق مرحوم نے مارشل لاء نافذ کرتے ہوئے ۱۹۷۳ء کے آئین کو معطل کر دیا۔ سپریم کورٹ نے جنرل مرحوم کی حکومت کو جائز قرار دیتے ہوئے ان کو د ستور میں ترمیم کی بھی اجازت فراہم کر دی۔ اس اجازت کی وجہ سے اسلامی نظریاتی کونسل نے یہ تجویز پیش کی کہ جنرل مرحوم صاحب د ستور میں ایسی ترمیم کر دیں جس کے ذریعے اعلی عدالتوں کو یہ اختیار مل جائے کہ وہ موجودہ قوانین کو شریعت کی ک سوٹی پر پرکھ سکیں ۔ڈاکٹر محمود غازی لکھتے ہیں : ’’اسلامی نظریاتی کونسل کی تجاویز کو اصولی طور پر منظور کرتے ہوئے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر نے د ستور میں ضروری ترامیم کر دیں اور ۱۰ فروری ۱۹۷۹ء مطابق ۱۲ ربیع الأول ۱۴۰۰ھ کو ایک اہم د ستوری ترمیم کے ذریعے یہ اختیار عدالتوں کو مل گیا۔‘‘[3] مذکورہ بالا ترمیم کے نتیجے میں ۱۰ فروری ۱۹۷۹ء کو چاروں صوبوں کی ہائی کورٹ س میں ایک شریعت بنچ اور سپریم کورٹ میں شریعت ایپلیٹ بنچ قائم کیا گیا۔ان بنچوں کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ کسی شہری کی درخوا ست پر کسی بھی ریا ستی قانون کے بارے میں یہ جائزہ لے سکتے ہیں کہ وہ
Flag Counter