قرآن و سنت کے منافی ہے یا نہیں ۔یہ ایک بہت ہی مستحسن اقدام تھالیکن جنرل مرحوم صاحب نے عدلیہ کو یہ اختیارکچھ ا ستثناء ات کے ساتھ دیاجن میں سے چارمستقل اور ایک عارضی تھا۔ڈاکٹر محمود أحمد غازی لکھتے ہیں :
’’جو چارمستقل ا ستثناء ات تھے ان میں ایک تو خود آئین تھا‘ ایک پر سنل لاز یعنی شخصی قوانین تھے‘ ایک ا ستثناء پرو سیجرل لاء کا تھااور ایک مارشل لاء کے ریگولیشن تھے۔جو عارضی ا ستثناء تھا وہ مالیاتی قوانین کا تھا اور ابتداء اً تین سال کے لیے کیا گیا تھا۔۔۔ان پانچ ا ستثناء کے علاوہ بقیہ تمام قوانین جن میں دیوانی قانون‘ فوجداری قانون اور قانون تجارت جی سے اہم شعبہ ہائے قانون شامل تھے‘ سب شریعت بنچوں کے دائرہ اختیار میں آگئے اور اور ان پر شریعت بنچوں نے کام کرنا شروع کر دیا۔‘‘[1]
۱۰ فروری ۱۹۷۹ء کو جنرل ضیاء الحق مرحوم نے ایک حکم کے ذریعے حدود آرڈیننس جاری کیا جو جائیداد‘ زنا‘ قذف‘ امتناع اور سزائے تازیانہ سے متعلق تھا۔بعد ازاں ۱۹۸۵ء میں اس وقت کی ا سمبلی نے اس آرڈیننس کی توثیق کرتے ہوئے ا سے آئینی تحفظ فراہم کیا۔ان قوانین کے اطلاق میں پرو سیجرل لاء(Procedural Law)‘معاشرتی کرپشن اور بگاڑ کی وجہ سے بعض اوقات صحیح نتائج یا ثمرات حاصل نہ ہوئے تو بعض منفی ذہنیت کے عناصر ان قوانین کی من سوخی کے درپے ہو گئے۔پیپلز پارٹی نے ان قوانین کی تن سیخ کے لیے تقریباً دو مرتبہ ا سمبلی میں بل پیش کیا۔بعض سیکولر سیا سی حلقوں اور حقوق ن سواں کی تنظیموں اور پرویز مشرف کی روشن خیال حکومت کی طرف سے۲۱اگست ۲۰۰۶ء کو ’فوجداری ترمیمی بل ۲۰۰۶ء‘ پیش کیا گیا۔بعد میں ا سی بل کا نام ’تحفظ خواتین بل ۲۰۰۶ء‘ رکھا گیا۔ملک کے تمام معروف دینی حلقوں نے ان ترمیمات کی مخالفت کی اور ان کو اسلام کے خلاف ایک سازش قرار دیا۔
شریعت بنچوں کے ایک سال تجربے سے اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ چار مختلف ہائی کورٹ س میں چار شریعت بنچوں کی بجائے ایک مستقل عدالت قائم کر دی جائے جو چاروں ہائی کورٹ س کی نمائندہ ہو۔چناچہ مئی ۱۹۸۰ء میں ایک وفاقی شرعی عدالت قائم کر دی گئی جس کاصدر دفتر اسلام آباد میں تھا۔چاروں ہائی کورٹ س سے ایک جج لیا گیا اور سپریم کورٹ کے ایک سابق جج اس عدالت کے سربراہ بنے۔ا سی دوران اس عدالت کی پانچ رکنی کمیٹی میں سے تین ججوں نے شادی شدہ زانی کے لیے رجم کے مسئلے میں جمہور علماء کا موقف سنے بغیر ایک شاذ رائے کی نمائندگی کرتے ہوئے اس کو خلاف شریعت قراردیا۔بعد ازاں عوامی و علمی حلقوں کے دباؤ کے پیش نظر تین جیدعلماء کو اس عدالت کا رکن بنایا گیا اور اس عدالت نے بہت سے قوانین کا علمی جائز ہ لیا۔ڈاکٹر محمود أحمد غازی لکھتے ہیں :
’’۱۹۸۰ء میں اپنے قیام سے لے کر آج تک وفاقی شرعی عدالت نے سینکڑوں قوانین کا جائز ہ لیااور ان میں سے بہت سے قوانین کی جزوی ترامیم کا حکم دیا۔حکومت کو مجبوراً وہ ترامیم کرنا پڑیں ۔یوں پاکستان میں سینکڑوں قوانین کو وفاقی شرعی عدالت کے ذریعے اسلام کے مطابق بنایا جا چکا اور یہ اتنی بڑی کامیابی ہے جو پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک میں حاصل نہیں کی جا سکی۔‘‘[2]
۲۰ جون ۱۹۸۰ء ہی میں جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں ملک بھر میں زکوۃ و عشر آرڈیننس جاری کیا گیا۔ اس نظام کے تحت پورے ملک میں ۴۰ ہزار مقامی زکوۃ کمیٹیاں ‘چار صوبائی زکوۃ کون سلیں اور سینکڑوں ضلع و تحصیل زکوۃ کمیٹیاں تشکیل دی گئیں ۔ اس نظام میں اگرچہ کئی ایک خرابیاں تھیں اور ابھی تک باقی ہیں لیکن اپنے مقاصد و اہداف کے اعتبار سے یہ ایک بہترین نظام تھا۔
۱۰جولائی ۱۹۸۳ء میں سرکاری سطح پر ایک کمیشن قائم ہواجو ملک کے نامور علماء‘ ماہرین قانون‘ اعلی عدالتوں کے ریٹائرڈ ججوں اور اہل قلم پر مشتمل تھا۔ اس کے صدر مولانا ظفر احمد انصاری رحمہ اللہ تھے اور انہی کے نام پر اس کو ’أنصاری کمیشن‘ کا نام دیا گیا۔ اس کمیشن نے ۵۴ کے قریب سفارشات صدر کو پیش کیں ‘ جن میں سے چند ایک کو صدر نے منظور کر لیا۔انہی سفارشات میں سے ایک یہ بھی تھی کہ قرار داد مقاصد جو اب تک ۱۹۷۳ء کے آئین کے ایک دیباچے کی حیثیت رکھتی تھی‘ اس کو ایک ترمیم کے ذریعے۷۳ء کے آئین کا باقاعدہ حصہ بنادیا گیا۔
|