Maktaba Wahhabi

176 - 214
۱۵ جون ۱۹۸۸ء جنرل ضیاء الحق مرحوم نے نفاذ شریعت آرڈیننس جاری کیا۔یہ آرڈیننس چار ماہ کے لیے تھااور ۱۵ اکتوبر ۱۹۸۸ء کو اس کی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی اس وقت کے قائمقام صدر جناب غلام ا سحاق خان صاحب نے ایک’ نفاذ شریعت ترمیمی آرڈینن س‘جاری کر دیا۔یہ آرڈیننس بھی اپنی انتہائی مدت پوری کرتے ہوئے چار ماہ بعد ازخود ختم ہو گیا۔ ۱۷ مارچ ۱۹۹۷ء کو نافذ ہونے والا قصاص و دیت ایکٹ بھی نفاذ اسلام کے ہدف کی طرف ایک قابل قدر پیش رفت ہے۔ڈاکٹر محمود أحمد غازی لکھتے ہیں : ’’یہ بات نہایت ہی اف سو س ناک ہے کہ ۱۹۷۷ء سے پہلے کسی ا سمبلی نے ا سے ایکٹ بنا کر قانون کا درجہ نہیں دیا۔ پوری اینگلو سیک سن تاریخ میں یہ شاید پہلا اور واحد موقع تھاکہ ایک آرڈیننس کو جو درجنوں مرتبہ جاری کیا جا چکا تھاا سے ملک کی پارلیمنٹ نے اتنی طویل مدت تک منظور نہ کیا۔ ہر آرڈیننس کی مدت چار ماہ ہوتی ہے‘ اس دوران اگر پارلیمنٹ ا سے منظور نہ کرے تو منسوخ ہوجاتا ہے۔قصاص و دیت کا یہ آرڈیننس بار بار نافذ ہوتا رہا۔ہر چار ماہ بعد جب بھی یہ منسوخ ہونے کے قریب آتاتو صدر ایک بار پھر اس آرڈیننس کو جاری کر دیتا۔۔۔بالآخر Qisasand Diyat Act 1997کے ذریعے ا سے باقاعدہ اور مستقل قانون کا درجہ حاصل ہو گیا۔‘‘[1] ۲۳ د سمبر ۱۹۹۹ء کو پاکستان کی سپریم کورٹ کے اپلیٹ بنچ نے متفقہ طور پر معاشرے میں جاری ہر طرح کے تجارت و صرفی لین دین کو قرآن و سنت سے متصادم ہونے کی وجہ سے حرام اور ناجائز قرار دیا۔ڈاکٹر ظفر علی راجا لکھتے ہیں : ’’ سپریم کورٹ آف پاکستان کے شریعت اپلیٹ بنچ نے متفقہ طور پر قرار دیا کہ تجارتی و صرفی ہر طرح کے لین دین پر معاشرے میں جاری سود کی تمام اشکال قرآن و سنت سے متصادم ہونے کے باوصف حرام اور ممنوع ہیں ۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی قراردیا کہ حکومتی سطح پر حاصل کردہ ملکی اور بین الأقوامی سودی قرضے بھی ا سی ذیل میں آتے ہیں ‘ لہٰذا ان کا چلن بھی اسلامی تعلیمات کی رو سے ناجائز ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں حکومت کو ہدایت کی ہے کہ وہ آٹھ سودی قوانین کو مارچ ۲۰۰۰ء تک تبدیل کر کے قرآن و سنت کے سانچے میں ڈھال لے جبکہ بقایا تمام سودی قوانین کو ختم یا تبدیل کرنے کے لیے ۳۰ جون ۲۰۰۱ء تک کی مہلت دے دی گئی ہے۔‘‘[2] لیکن قابل اف سو س بات یہ ہے کہ اس وقت کی آمرانہ ا ور روشن خیال حکومت نے اس سلسلے میں حیلے بہانوں اور ٹال مٹول سے کام لیا اور تاحال اس بارے میں بعد ازاں عملاً کوئی پیش رفت نہ ہو سکی۔ ٭٭٭
Flag Counter