Maktaba Wahhabi

80 - 214
اگرچہ وہ اکثریت میں نہیں ہیں ۔ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں : ’’عبارۃ:(أغلب الفقھاء)و(أغلب المجتھدین)فھذا التنصیص محل نظر من حیث:(أ)إن الحکم بأن المجتمعین ھم أغلب الفقھاء أو المجتھدین متعذر۔ (ب) ثم إن الأقلیۃ المخالفۃ یصدق علی اجتھادھا أنہ اجتھاد جماعی۔(ج)وکذا لو أن جمعاً من الفقھاء ممن لا یمثلون الأغلبیۃ اجتھدوا لعد ذلک اجتھاداً جماعیاً صحیحاً۔‘‘[1] ’’اکثر فقہاء یا مجتہدین کی شرط لگاناتین اعتبارات سے محل نظر ہے: ۱۔اکثر فقہاء یا مجتہدین کا اتفا ق ایک مشکل أمر ہے۔۲۔ جس اقلیت نے اس اجتہاد کی مخالفت کی ہے‘ وہ بھی اجتماعی اجتہاد ہی ہے(اگر وہ دو سے زائد ہوں )۔۳۔ ا سی طرح اگر علماء کی ایک محدود جماعت‘ جو اکثریت نہ ہو‘آ پس میں مل کر اجتہا دکرتے ہیں تو اس کو بھی صحیح اجتماعی اجتہاد ہی میں شمار کریں گے۔‘‘ ہمارے خیال میں کسی مسئلے میں علماء کی اکثریت کا اتفاق ایک چیلنج تو ہے لیکن ناممکن امر نہیں ہے لیکن اس اکثریت کو اجتماعی اجتہاد کے عمل کے ایک لازمی جز کے طور پر بیان نہیں کرنا چاہیے۔ماضی میں کئی ایک مسائل پر علماء کے اجماع کا دعوی کیاگیاہے اور یہ دعوی صحیح بھی ہے اور ایسے مسائل کی تعداد تو بہت زیادہ ہے جن میں اکثر مجتہدین کا اتفاق ہوتا ہے جیسا کہ فقہ المقارن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہزاروں مسائل ایسے ہیں کہ جن میں أئمہ ثلاثہ امام مالک رحمہ اللہ ‘ امام شافعی رحمہ اللہ اور امام احمد رحمہ اللہ کی رائے ایک ہی ہوتی ہے جبکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی رائے ان سے مختلف ہوتی ہے۔ا سی طرح اب تو باقاعدہ اس موضوع پر کتابیں لکھی جا رہی ہیں کہ ان مسائل کوجمع کیا جائے‘ جن میں أئمہ اربعہ کا اتفاق ہے۔فقہ کے تقابلی مطالعے میں عموماً یہ بات بار بار سامنے آتی ہے کہ اس مسئلے میں جمہور علماء کا یہ موقف ہے اور یہ اجتماعی اجتہاد ہی کی ایک شکل ہے اگرچہ ان علماء کی رائے کسی اجتماع یا مشورے کے بغیراتفاقا ً ایک دو سرے کی تائید کر رہی ہوتی ہے۔ ہاں ! یہ بات در ست ہے کہ ایک مسئلہ جب علماء کی ایک جماعت کے سامنے رکھا جائے تو ضروری نہیں ہے کہ ایک ہی مجلس میں ان کی اکثریت اس کے شرعی حکم پر اتفاق کر لے بلکہ اس مسئلے پر کئی ایک مجال س میں رد و قدح کے بعد ان کی اکثریت کسی ایک موقف تک پہنچ سکتی ہے بشرطیکہ وہ دلائل کے تبادلہ خیال میں دلیل کی قوت کو قبول کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں اورمذہبی تعصب یا فرقہ وارانہ پس منظر میں رد عمل کا شکار ہو کر اپنے موقف پر مصر نہ رہیں ۔علاوہ ازیں باہمی اتفاق و اتحاد رائے ان پر اس قدر سوارنہ ہو کہ وہ اس جذبے کو حق بات پر ترجیح دینے لگ جائیں ۔ڈاکٹر عبد المجیدالسؤسوۃ حفظہ اللہ اجتماعی اجتہاد کی تعریف میں دو سری قید کی مزید وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’وأیضاً فی قولہ:(اتفاقھمم جمیعاً أو أغلبھم)‘ فیہ بیان للفرق بین الاجتھاد الجماعی والإجماع‘ فالإجماع یشترط فیہ اتفاق جمیع المجتھدین من أمۃ محمد صلي اللّٰه عليه وسلم علی حکم شرعی‘ بینما الاجتھاد الجماعی یکفي فیہ اتفاق مجموعۃ من العلماء المجتھدین أو أکثر العلماء المجتھدین‘ ولا یشترط فیہ اتفاق جمیع المجتھدین‘ إذ لو تم ھذا کان ذلک إجماعاً‘ وأیضاً یکفي فی الاجتھاد الجماعی اتفاق أغلب المشارکین فی الاجتھاد۔‘‘[2] ’’شریک علماء میں سب یا ان کی اکثریت کے اتفاق کی قید لگانے کا مقصد یہ بھی ہے کہ اجتماعی اجتہاد اور اجماع میں فرق واضح ہو جائے۔اجماع میں کسی شرعی حکم پر امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام مجتہد علماء کا اتفاق ضروری ہے جبکہ اجتماعی اجتہاد میں علماء کی ایک جماعت یا اکثر علمائے مجتہدین کا اتفاق بھی کافی ہے اور اگر اس اجتماعی اجتہاد سے قائم شدہ رائے پر باقی تمام علماء بھی اتفاق کر لیں تو یہ اجماع بن جائے گا۔اور یہ بات بھی واضح ہے کہ اجتماعی اجتہاد میں مجتہد علماء کی اکثریت کی شرکت ہی کافی ہے۔‘‘ ہمارے خیال میں یہ ایک اچھی وضاحت ہے کہ جس سے علامہ ألبانی رحمہ اللہ کے خدشے کا ازالہ ہو جاتا ہے۔ڈاکٹر عبد المجیدالسؤسؤۃ حفظہ اللہ
Flag Counter