ڈاکٹر عبد المجید السؤسؤۃ حفظہ اللہ نے اپنی تعریف میں دو سری قید یہ لگائی ہے کہ یہ اجتہاد کسی شرعی حکم سے متعلق ظن غالب کو حاصل کرنے کے لیے ہو گا‘ جبکہ یہ أمر واضح ہے کہ اجتہاد سے بعض اوقات ظن غالب حاصل ہوتاہے اور بعض صورتوں میں علم قطعی ‘ خصوصاً جبکہ اس اجتہاد پر ما بعد کے زمانوں میں اجماع بھی منعقد ہو جائے۔ڈاکٹر صالح بن عبد اللہ بن حمید حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’عبارۃ(لتحصیل ظن بحکم شرعی)ھذا الوصف غیر دقیق فإن کان المقصود بہ المجتھد فإنہ قد یتحصل من اجتھادہ علی ظن وقد یتحصل علی قطع‘ وإن کان المقصود بہ غیرہ فلیس ذا بال۔‘‘[1]
’’ کسی حکم شرعی سے متعلق ظن غالب کو حاصل کرنے کی عبارت ایک ایسا وصف ہے ‘جو غیر ضروری ہے۔ پس اگر اس سے مقصود مجتہد ہے تو اس کو تو بعض اوقات ظن حاصل ہوتا ہے اور بعض اوقات علم قطعی۔اور اگرمقصود کچھ اور ہے توپھر اس وصف کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
ڈاکٹر عبد المجیدالسؤسؤۃ حفظہ اللہ نے اجتماعی اجتہاد کی تعریف میں تیسری قید یہ لگائی ہے کہ اس اجتہاد میں شریک تمام علماء یا ان کی اکثریت زیر بحث مسئلے کے حکم پر متفق ہو جائے۔وہ لکھتے ہیں :
’’قولہ( واتفاقھم جمیعا أو أغلبھم علی الحکم)‘ قید لبیان أن الاجتھاد الصادر من جماعۃ لا یکون جماعیاً بالمعنی المقصود‘ إلا إذا نتج عنہ حکم متفق علیہ من جمیع أولئک المجتھدین أو من أغلبھم۔أما إذا لم یتفقوا‘ وظل کل مجتھد محتفظ برأیہ واجتھادہ‘ فلا یتحقق الاجتھاد الجماعی‘ وإنما تکون النتیجۃ مجموعۃ من الاجتھادات الفردیۃ المختلفۃ۔‘‘[2]
’’تمام علماء یا ان کی اکثریت کے متفق ہو جانے کی قید اس لیے لگائی گئی ہے تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ اجتہاد اس وقت تک اجتماعی نہیں کہلائے گا جب تک کہ تمام مجتہدین یا ان کی اکثریت اس مسئلے کے شرعی حکم پر متفق نہ ہوجائے۔اگرتمام یا اکثرعلماء متفق نہ ہوئے اور ہر مجتہد اپنے اجتہاد اور رائے پر تحفظات کا شکار رہا تو پھر اجتماعی اجتہاد حاصل نہیں ہوگا بلکہ یہ مختلف انفرادی اجتہادات کا نتیجہ ہو گا۔‘‘
اس قید پر اعتراض یہ کیا گیا ہے کہ جس طرح علماء کی اکثریت کا ایک جگہ اجتماع ایک مشکل امر ہے اس سے زیادہ ناممکن کام ان سب یا ان کی اکثریت کا کسی مسئلے میں کسی شرعی حکم پر اتفاق کر لینا ہے۔علامہ البانی رحمہ اللہ اس نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
’’أن قولہ:’’واتفاقھم جمیعاً‘‘ ! فھذا أبعد من التحقق من الذی قبلہ‘ خاصۃ فی ھذا الزمن الذی قل فیہ المجتھدون اجتھادا فردیاً مع توفر شروط الاجتھاد‘ التی تکلم عنھا کلاماً جیدا دکتور الشرفي ! ولعلہ لذلک أتبعہ بقولہ معطوفاً علیہ:’’ّأو أغلبھم‘‘ ! فھذا الاجتھاد الجماعی أشبہ ما یکون بالاجتھاد الفردی المجمع علیہ فی تعریف علماء الأصول وأصعب تحقیقا۔‘‘[3]
’’ڈاکٹر عبد المجید السؤسؤۃ کا اجتماعی اجتہاد کی تعریف میں تمام علماء کے اتفاق کی قید لگانا ایک ایسی شرط ہے کہ جس کا پایا جانا پہلی شرط کی نسبت زیادہ مشکل ہے‘ خاص طور پر اس زمانے میں کہ جس میں ایسے مجتہدین بہت کم ہیں کہ جن میں اجتہاد کی وہ شروط پائی جاتی ہوں کہ جن کے بارے میں ڈاکٹر عبد المجید السؤسؤۃنے بھی بڑا عمدہ کلام کیاہے۔شاید یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے معاً بعد ان کی اکثریت کے اتفاق کا تذکرہ بھی کر دیا ہے۔‘‘
ا سی طرح ڈاکٹرصالح بن عبد اللہ بن حمید حفظہ اللہ لکھتے کہ اگر مجتہدین کی ایک بڑی جماعت مثلاً پچ اس افراد پر مشتمل مجلس میں کسی مسئلے کے شرعی حکم کے بارے میں بحث و تمحیص کے بعد اختلاف کی صورت میں دو گروہ بن جاتے ہیں ۔بڑے گروہ مثلاً چالیس افراد کی رائے ایک ہے جبکہ چھوٹے گروہ مثلاً د س افراد کی رائے اس کے برعکس ہے۔ اب اس دو سری جماعت کے اجتہاد پر بھی اجتماعی اجتہا دہی کے لفظ کا اطلاق ہو گا
|