جماعت کی بھرپور کوششوں کا نام ہے نہ کہ ایک فرد کی کوشش کا۔ اور یہ جماعت علمائے مجتہدین کی غالب اکثریت پر مشتمل ہو گی۔‘‘
ڈاکٹر عبد المجیدالسؤسوۃ حفظہ اللہ کی یہ بات محل نظر ہے کہ اجتماعی اجتہاد سے مراد فقہاء کی اکثریت کا اجتہاد ہے۔اگر تو اجتماعی اجتہاد کا لغوی معنی دیکھا جائے تو تین علماء کے اتفاق پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے لہذا فقہاء کی اکثریت کے اتفاق کی شرط لگانا بے معنی ہے۔اور اگر تو ڈاکٹر صاحب کی مراد اجتماعی اجتہاد کی اصطلاحی تعریف ہے تو صرف ایک عالم کا اصطلاحی تعریف متعین کردینا منا سب أمر نہیں ہے بلکہ علماء کی اکثریت جب تک اس تعریف کی تائید نہیں کر دیتی‘ اس وقت تک اس کا بیان کردہ اصطلاحی معنی‘ اصطلاحی نہیں کہلایا جا سکتاہے۔اصطلاح عربی زبان کا ایک لفظ ہے کہ جس کا مادہ ’صلح‘ ہے یعنی اصطلاح ا سے کہتے ہیں کہ اس لفظ کے فلاں معنی پر علماء کی ایک جماعت کا اتفاق ہو گیا ہے کہ جب بھی یہ لفظ بولا جائے گا تو اس سے مراد یہ معنی ہو گا۔ پس اصطلاح ایک شخص کی نہیں ہوتی بلکہ ایک جماعت جب ایک لفظ کو کسی مخصوص معنی میں استعمال کرتی ہے تو وہ اصطلاح کہلاتی ہے۔
ہمارا نقطہ نظر یہ ہے کہ ابھی اجتماعی اجتہاد کی اصطلاحی تعریف وضع ہو رہی ہے لہذا اس عرصے میں جو صاحب علم بھی اجتماعی اجتہاد کے معاصر تصور کو الفاظ میں ڈھالنے کی کوشش کریں ‘ وہ اس کو اصطلاحی تعریف کا نام نہ دیں بلکہ انداز بیان یوں ہو کہ اجتماعی اجتہاد کی ممکنہ اصطلاحی تعریف یہ ہو سکتی ہے۔بعد ازاں اگر علماء کی ایک معتد بہ جماعت کا اجتماعی اجتہاد کی اس تعریف پر اتفاق ہو جائے تو اس کو اصطلاحی تعریف کا نام دیا جا سکتا ہے۔تا حال معاصر علماء نے اجتماعی اجتہاد کی مختلف تعریفیں بیان کی ہیں اور ان پر رد و قدح کا عمل جاری ہے۔ڈاکٹر عبد المجید حفظہ اللہ کی اس تعریف پرایک اعتراض یہ وارد ہوتا ہے کہ یہ اجتماعی اجتہاد کی ایک ایسی تعریف ہے جو اس کے لغوی معنی پر پوری نہیں اترتی ہے۔
دو سرا اعتراض یہ وارد ہوتا ہے کہ اگرڈاکٹر عبد المجید حفظہ اللہ کی اس تعریف کودر ست مان لیا جائے توعصر حاضر میں اجتماعی اجتہاد کے نام سے جتنا کام بھی ہورہا ہے وہ اس تعریف میں شامل نہیں ہوتاہے۔اسلامی فقہ اکیڈمی ہو یا’مجمع البحوث الاسلامیۃ‘اسلامی نظریاتی کونسل ہو یا’ھیئۃ کبار العلماء السعودیۃ‘۔ اجتماعی اجتہاد کے ان تمام اداروں کے اراکین اپنے ممالک کے علماء کی بھی غالب اکثریت پر مشتمل نہیں ہیں چہ جائیکہ کہ وہ عالم اسلام کے جمہور علماء کی نمائندگی کر رہے ہوں ۔اجتماعی اجتہاد کے نام پر جو بھی ادارے اس وقت کام کر رہے ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جو ملت اسلامیہ کے جمہور تو کیا ایک چوتھائی علماء پر بھی مشتمل ہو۔
تیسرا اعتراض یہ ہے کہ اجتماعی اجتہاد کی اس تعریف کو خود اس معیار پر پیش کیا جائے جو ڈاکٹر صاحب نے بیان کیاہے تو یہ اس پربھی پوری نہیں اترتی ہے۔ڈاکٹر صاحب نے اجتماعی اجتہاد کے لیے علماء کی اکثریت کی قید لگائی ہے جبکہ علماء کی اکثریت اجتماعی اجتہاد کی اس تعریف کی قائل ہی نہیں ہے جیسا کہ ہم آگے چل کر بیان کریں گے ۔
چوتھا اعتراض یہ ہے کہ ملت اسلامیہ کئی ایک بر اعظموں میں پھیلی ہوئی ہے اور تمام دنیا سے علماء کی اکثریت کو اکٹھا کرناایک بہت ہی مشکل کام ہے۔ا سی پہلو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے علامہ البانی رحمہ اللہ نے ڈاکٹر عبد المجیدالسؤ سؤۃ حفظہ اللہ کی تعریف پر نقد کی ہے ۔وہ لکھتے ہیں :
’’وقد جاء بقیدین‘ أحدھما أبعد عن الامکان من الآخر‘ فإن قولہ:’’أغلب الفقہاء‘‘! کیف یمکن مع تفرقھم فی البلاد الاسلامیۃ الشا سعۃ ؟! ثم کیف یمکن جمعھم فی مکان واحد حتی یتشاوروا فی الحکم ؟!۔‘‘[1]
’’ڈاکٹر عبد المجید السؤسؤۃنے اجتماعی اجتہاد کی تعریف میں دو قیدوں کو بیان کیا ہے جبکہ ان میں ہرایک کا امکان دو سری سے بڑھ کر ناممکن ہے۔ڈاکٹر عبد المجید السؤسؤۃنے فقہاء کی اکثریت کی شرط لگائی ہے حالانکہ اس اکثریت کا اجتماع کیسے ممکن ہے جبکہ علماء مختلف اسلامی ممالک میں بکھرے ہوئے ہیں ۔ان سب کو ایک جگہ اکٹھاکرنا کیسے ممکن ہے جبکہ ان کی آ پس کی مشاورت تو اس اجتماع کے بعد کا معاملہ ہے۔ ‘‘
|