Maktaba Wahhabi

76 - 214
’’ ’جمع‘ باب ’فتح‘ سے جمع کرنے کے معنی میں ہے اور اس کا مصدر’جمعاً‘ ہے۔۔۔ا سی طرح’مجموع‘ سے مراد وہ شے ہے جو اِدھر اُدھر سے جمع کی گئی ہو اگرچہ وہ شیء واحد نہ بھی ہو۔۔۔ا سی طرح ’جمع‘ لوگوں کی جماعت کو بھی کہتے ہیں اور ’جمع‘ اہل عرب کے قول’جمعت الشیء‘ سے مصدر ہے۔علاوہ ازیں ’جَمْعٌ‘ سے جمع ہونے والے لوگ بھی مراد ہوتے ہیں ۔’جَمْعٌ‘ کی جمع ’جموع‘ ہے ۔جماعت‘ جمیع‘ مجمع اور مجمعہ وغیرہ کے الفاظ ’جَمْعٌ‘کی جگہ استعمال ہو جاتے ہیں ۔۔۔’مجمع‘ سے مراد لوگوں کی جماعت ہے یا پھر وہ جگہ جہاں لوگ جمع ہوں ۔۔۔’أمر جامع‘ سے مراد ایسا کام ہے جو لوگوں کو جمع کرنے والا ہوجیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے : اور جب و ہ کسی جمع کرنے والے کام میں مصروف ہوتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت لیے بغیر نہیں جاتے۔۔۔’جِمَاعُ الشیء‘ سے مراد اس کا مجموعہ ہے جیسا کہ’جماع الخباء‘ سے مراد خیمے ہیں کیونکہ’جماع‘ سے مراد مجموعی تعداد ہے۔ا سی طرح کہا جاتا ہے: شراب ’جماع الإثم‘ہے یعنی گناہ کو جمع کرنے والی ہے اور اس کی جڑہے۔‘‘ المعجم الو سیط‘کے مصنفین لکھتے ہیں : ’’جمع المتفرق جمعاً ضم بعضہ إلی بعض۔۔۔ویقال جمع القوم لأعدائھم حشدوا لقتالھم وفی التنزیل العزیز﴿ اِنَّ الناس قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْھُمْ﴾۔۔۔جماع کل شیء مجتمع أصلہ وما جمع عدداً ویقال الخمر جماع الإثم ویقال ھذا الباب جماع ھذہ الأبواب الجامع لھا الشامل لما فیھا وفلان جماع لبنی فلان یأوون إلیہ ویعتمدون علی رأیہ و سؤددہ وقدر جماع عظیمۃ۔‘‘[1] ’’ کسی متفرق شیء کو جمع کرنایعنی اس کے بعض حصوں کو بعض سے ملا دینا۔۔۔ا سی طرح کہا جاتا ہے: قوم اپنے دشمنوں کے خلاف جمع ہو گئی ہے یعنی ان سے لڑائی کے لیے وہ ایک جماعت بن گئے ہیں ۔قرآن مجید میں ہے :( مسلمانوں سے بعض مشرکین نے کہا )بے شک لوگ(یعنی مشرکین)تم سے لڑائی کے لیے اکھٹے ہو گئے ہیں ‘ پس تم(اے مسلمانو!)ان سے ڈرو‘‘۔۔۔ کسی چیز کے ’جماع‘ سے مراد اس کی اصل کو جمع کرنا اور جتنا کچھ جمع کیا گیا ہو‘ دونوں مراد ہوتے ہیں ۔جیسا کہ کہا جاتا ہے : شراب گناہ کو جمع کرنے والی ہے ۔ا سی طرح کہا جاتا ہے: یہ باب ان تمام ابواب کا جامع ہے یعنی ان کو شامل ہے۔ا سی طرح یہ بھی کہا جاتاہے:فلاں شخص بنو فلاں کو جمع کرنے والی أصل و بنیاد ہے یعنی وہ لوگ اس کی طرف پناہ لیتے ہیں ‘ اس کے فیصلوں اور سرداری پر اعتماد کرتے ہیں ۔’قدر جماع‘ سے مراد عظیم قدر ہے۔‘‘ اجتہاد کے لغوی معنی پر سیر حاصل بحث ہم سابقہ باب میں کر چکے ہیں ۔ اس کامکمل اعادہ کرنے کی بجائے اس کا خلاصہ ہم نقل کیے دیتے ہیں ۔علامہ أبو الحسن علی بن ا سماعیل ابن سیدہ رحمہ اللہ متوفی ۴۵۸ھ لکھتے ہیں : ’’الجُھْدُ والجَھْدُ: الطاقۃ‘ وقیل: الجُھْدُ: المشقۃ‘ والجَھْدُ: الطاقۃ۔۔۔وجَھَدَ یَجْھَدُ جَھْدًا‘ واجتھد‘ کلاھما جدَّ۔‘‘[2] ’’ ’جہد‘[ضمہ کے ساتھ]اور ’جہد‘ [فتحہ کے ساتھ]دونوں سے مراد طاقت ہے اور یہ بھی کہا گیاہے کہ ’جہد‘ [ضمہ کے ساتھ] سے مراد طاقت ہے اور ’جہد‘ [فتحہ کے ساتھ] سے مراد مشقت ہے۔۔۔’جہد‘ اور ’اجتہد‘ دونوں کا معنی ہے: اس نے کوشش کی۔‘‘ علامہ أبو الفضل جمال الدین محمد بن مکرم المعروف بابن منظور أفریقی رحمہ اللہ متوفی۷۱۱ھ لکھتے ہیں : ’’الجَھْدُ والجُھْدُ الطاقۃ تقول اجھد جھدک وقیل الجَھْدُ المشقۃ والجُھْدُ الطاقۃ ۔۔۔وجَھَدَ یَجْھَدُ جَھْدًا واجْتَھَدَ کلاھما جدَّ۔۔۔والاجتھاد والتجاھد بذل الو سع المجھود وفی حدیث معاذ ’’اجتھد رأیی‘‘ الاجتھاد بذل الو سع فی طلب الأمر وھو افتعال من الجھد الطاقۃ۔‘‘[3] ’’ ’جَہد ‘ اور’جُہد‘ سے مراد طاقت ہے جیسا کہ اہل عرب کا قول ہے: تواپنی طاقت صرف کر ۔اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ’جَہد‘ سے مراد
Flag Counter