’’ اس کو امام طبرانی رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں اور صحیحین کے رواۃ میں سے ہیں ۔‘‘
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو ’ضعیف منکر‘ قرار دیا ہے۔[1]
صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمانے میں درج ذیل مسائل میں اجتماعی مشاورت و اجتہاد سے فتاوی جاری کیے گئے:
٭ خلیفہ أول کی تقرری میں اجتماعی اجتہاد
٭ حضرت أ سامہ بن زید رضی اللہ عنہ کے لشکر کے بارے اجتماعی مشاورت
٭ مرتدین کے ساتھ قتال کے بارے میں باہمی مشورہ
٭ جمع قرآن کے بارے اجتماعی مشاورت
٭ أمور حرب میں باہمی مشاورت
٭ شراب کی حد کے بارے اجتماعی اجتہاد
٭ حد قذف کے بارے اجتماعی مشورہ
٭ أم الولد کے آزاد ہونے کے بارے اجتماعی اجتہاد
٭ غیر اقوام کے تجار سے ٹیکس وصول کرنے کے بارے باہمی مشاورت
٭ مضطر زانی پر حد جاری کرنے میں اجتماعی اجتہاد
٭ عدالتی فیصلوں میں اجتماعی اجتہاد
٭ خلیفہ ثالث کی تقرری میں باہمی مشاورت
٭ ر سم قرآن کے بارے اجتماعی اجتہاد
٭ خلیفہ ثالث کی خلافت و امارت سے معزولی کے بارے باہمی مشاورت
دورِ نبوی اور دور ِصحابہ میں اجتماعی اجتہاد کی ان مثالوں پر بالتفصیل گفتگو ہم اپنے اس مقالے کے چوتھے باب میں کریں گے۔
٭٭٭
|