حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے تو بعض صحابہ کو اپنا مستقل مشیر بھی بنا رکھا تھا۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں :
’’ حدثنا محمد بن صالح بن ھانی ثنا الفضل بن محمد بن البیھقی ثنا عبد اللّٰہ بن صالح ثنا عبد العزیز بن أبی سلمۃ الماجشون عن عبد الواحد بن أبی عون عن القا سم بن محمد عن عبد اللّٰہ بن عمر أتی النبی صلي اللّٰه عليه وسلم کتاب رجل فقال لعبد اللّٰہ بن أرقم أجب عنی فکتب جوابہ ثم قرأہ علیہ فقال: أصبت وأح سنت اللھم وفقہ فلما ولی عمر کان یشاورہ۔‘‘[1]
’’ہمیں محمد بن صالح بن ہانی نے بیان کیا ہے‘ انہوں نے کہا ‘ ہمیں فضل بن محمد بن بیہقی نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں عبد اللہ بن صالح نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں عبد العزیز بن أبی سلمۃ ماجشون نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں عبد الواحد بن أبی عون نے قا سم بن محمد سے اور انہوں نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی کا خط آیا‘ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن أرقم رضی اللہ عنہ سے کہا: میری طرف سے جواب لکھیں ‘ تو انہوں نے جواب لکھا اورپھر آپ کو پڑھ کر سنا دیا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو نے در ست اور اچھا جواب لکھا ہے۔ اللہ تعالیٰ تمہیں اور زیادہ توفیق دے۔ پس جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے تو ان سے مختلف معاملات میں مشاورت کرتے تھے ۔ ‘‘
امام حاکم رحمہ اللہ اس حدیث کی سند کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’ھذا حدیث صحیح الإ سناد ولم یخرجاہ۔‘‘[2]
’’ اس حدیث کی سند ’صحیح‘ ہے اگرچہ شیخین نے ا سے روایت نہیں کیا ہے۔‘‘
امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کو ’صحیح‘ کہا ہے۔[3]
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں کوفہ کے مفتی تھے‘ بھی مسلمانوں کی اجتماعی اجتہادی آراء کو بہت اہمیت دیتے تھے۔ایک روایت کے الفاظ ہیں ۔
’’ أخبرنا یحی بن حماد ثنا شعبۃ عن سلیمان بن عمارۃ بن عمیر عن حریث بن ظھیر قال أحسبہ أن عبد اللّٰہ قال: قد أتی علینا زمان وما نسأل وما نحن ھناک ‘ وإن اللّٰہ قدر أن بلغت ما ترون‘ فإذا سئلتم عن شیء فانظروا فی کتاب اللّٰہ ‘ فإن لم تجدوہ فی کتاب اللّٰہ ففی سنۃ ر سول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم فإن لم تجدوہ فی سنۃ رسول اللّٰہ صلي اللّٰه عليه وسلم فما أجمع علیہ المسلون‘ فإن لم یکن فیما أجمع علیہ المسلمون فاجتھد رأیک‘ ولا تقل إنی أخاف وأخشی ‘ فإن الحلال بین والحرام بین وبین ذلک أمور مشتبھۃ‘ فدع مایریبک إلی ما لا یریبک۔‘‘[4]
’’ہمیں یحی بن حماد نے خبر دی‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں سلیمان بن عمارۃ بن عمیر نے بیان کیا ہے‘ انہوں نے حریث بن ظہیر سے نقل کیا ہے‘انہوں نے کہا‘ میرا گمان ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ بات کہی ہے: ایک وقت ایسا بھی آئے گا جبکہ ہم نہیں ہوں گے اور نہ ہی ہم سے مسائل پوچھے جائیں گے اور اللہ تعالیٰ نے اس کو مقدر کر دیا ہے کہ میں اس وقت کوپہنچوں جسے تم دیکھ رہے ہو(یعنی میری وفات ہو جائے)۔ پس جب تم سے کسی چیز کے بارے میں سوال ہو تو کتاب اللہ میں غور و فکر کرو۔ پس اگر ا سے کتاب اللہ میں نہ پاؤ تو سنت ر سول صلی اللہ علیہ وسلم میں تلاش کرو۔ پس اگر اس کو سنت ر سول صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی نہ پاؤ تو اس کو لے لو جس پر تمام مسلمانوں نے اتفاق کیا ہو۔ پس اگر وہ
|