یجد فیہ سنۃ من النبی صلي اللّٰه عليه وسلم جمع رؤو س الناس وخیارھم فا ستشارھم فان أجمع رأیھم علی أمر قضی بہ۔‘‘[1]
’’ہمیں محمد بن صلت نے خبردی‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں زہیرنے جعفر بن برقان سے بیان کیاہے‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں میمون بن مہران نے بیان کرتے ہوئے کہا ہے: جب حضرت أبوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس کوئی مقدمہ پیش ہوتا تھا تو کتاب اللہ میں غور وفکر کرتے تھے۔ پس اگر انہیں کتاب اللہ میں کوئی ایسی چیز مل جاتی کہ جس کے مطابق وہ فیصلہ کر سکیں تو وہ اس کے ساتھ فیصلہ کر دیتے تھے ۔ پس اگر کتاب اللہ میں کوئی مسئلہ موجود نہ ہوتااور اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی سنت ان کے علم میں ہوتی تو اس کے مطابق فیصلہ کر دیتے تھے۔ پس اگرانہیں کو ئی سنت بھی نہ ملتی تو وہ مسلمانوں کی طرف نکلتے اور ان سے پوچھتے اور کہتے: میرے پاس فلاں فلاں مسئلہ آیا ہے‘ کیا تم میں سے کسی کے پاس اس بارے اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فیصلہ محفوظ ہے۔بعض اوقات لوگوں کی ایک جماعت ان کے پاس اکھٹی ہوجاتی جو ان کو اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کے قضاء کے بارے میں خبر دیتی۔ اس پر حضرت أبوبکر رضی اللہ عنہ کہتے: تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمارے مابین ایسے لوگ پیدا کیے ہیں جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں کو محفوظ رکھتے ہیں ۔ پس اگر وہ کسی مسئلے میں اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی سنت بھی پانے سے عاجز آ جاتے تو بہترین اورقابل افراد کو اکٹھا کرتے اور ان سے مشورہ طلب کرتے۔ پس اگر ان کی رائے کسی مسئلے پر متفق ہو جاتی تو اس کے مطابق فیصلہ کر دیتے تھے۔‘‘
شیخ حسین سلیم أ سد اس حدیث کی ا ستنادی حیثیت کے بارے میں لکھتے ہیں :
’’رجالہ ثقات غیر أن میمون بن مھران لم یدرک أبابکر فالإ سناد منقطع۔‘‘[2]
’’ اس کے راوی ثقہ ہیں لیکن میمون بن مہران کی أبو بکر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ثابت نہیں ہے لہذا اس کی سند’ منقطع ‘ہے۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں بھی بعض روایات سے ا سی طرز عمل کی نشاہدہی ہوتی ہے‘ جیسا کہ ایک روایت ہے:
’’ أخبرنا الشریف أبو الفتح العمری أنبا عبد الرحمن بن أبی شریح أنبا أبو القا سم البغوی ثنا داؤد بن رشید ثنا عمر بن أیوب ثنا جعفر بن برقان عن میمون بن مھران قال: کان أبوبکر رضی اللّٰہ عنہ إذا ورد علیہ الخصم نظر فی کتاب اللّٰہ ۔۔۔قال جعفر وحدثنی میمون أن عمر بن الخطاب رضی اللّٰہ عنہ کان یفعل ذلک فإن أعیاہ أن یجد فی القرآن والسنۃ نظر ھل کان لأبی بکر رضی اللّٰہ عنہ فیہ قضاء فإن وجد أبا بکر رضی اللّٰہ عنہ قد قضی فیہ بقضاء قضی بہ وإلا دعا رؤو س المسلمین وعلمائھم فا ستشارھم فإذا اجتمعوا الأمر قضی بینھم۔‘‘[3]
’’ہمیں أبو الفتح شریف العمری نے خبر دی‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں عبد الرحمن بن أبی شریح نے خبر دی‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں أبو القا سم بغوی نے خبر دی‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں داؤد بن رشید نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا ‘ ہمیں عمر بن أیوب نے بیان کیا‘ انہوں نے کہا‘ ہمیں جعفر بن برقان نے میمون بن مہران سے بیان کیا کہ انہوں نے کہا: جب حضرت أبوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس کوئی مقدمہ پیش ہوتا تھا تو کتاب اللہ میں غور وفکر کرتے تھے۔۔۔جعفر کہتے ہیں اور مجھے برقان بن میمون نے یہ بھی بیان کیا ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ پس اگرحضرت عمر رضی اللہ عنہ اس سے عاجز آ جا تے کہ وہ کتاب اللہ یا سنت ر سول صلی اللہ علیہ وسلم میں کوئی حکم پا لیں تو یہ غور و فکر کرتے تھے کہ حضرت أبوبکر رضی اللہ عنہ نے اس بارے میں کوئی فیصلہ جاری کیا ہے یا نہیں ۔ پس اگر وہ اس بارے میں حضرت أبو بکر رضی اللہ عنہ کا کوئی فیصلہ پا لیتے توا سی کے مطابق فیصلہ جاری فرما دیتے تھے ۔اور اگر ایسا نہ ہوتا تو مسلمانوں کے أمراء اور چیدہ چیدہ افراد کو اکٹھا کرتے اور ان سے مشورہ طلب کرتے تھے۔ پس جب وہ ایک رائے پر اکٹھا ہو جاتے تھے تو اس کے مطابق ان کے درمیان فیصلہ فرما دیتے تھے۔‘‘
|