﴿ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّ سوْلِ﴾[1]
’’ پس اگر تم کسی بھی مسئلے میں اختلاف کا شکار ہو تو اس کو اللہ اور اس کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹا دو۔‘‘
اس آیت مبارکہ میں ’شیء‘ شرط کے سیاق میں نکرہ ہے اور اپنے عموم میں نص ہے۔ پس تمام مسائل‘ دینی ہوں یا دنیوی‘ میں باہمی اختلاف کی صورت میں انہیں اللہ اور اس کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹانے کا حکم ہے۔اگر اختلاف کی صورت میں دونوں ہی مجتہد حق پر ہوتے تو اللہ اور اس کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوٹانے کا حکم نہ دیا جاتا۔ا سی طرح ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ وَ دَاوٗدَ وَ سلَیْمٰنَ اِذْ یَحْکُمٰنِ فِی الْحَرْثِ اِذْ نَفَشَتْ فِیْہِ غَنَمُ الْقَوْمِ وَ کُنَّا لِحُکْمِھِمْ شٰھِدِیْنَ۔فَفَھَّمْنٰھَا سلَیْمٰنَ وَ کُلًّا اٰتَیْنَاحُکْمًا وَّ عِلْمًا﴾[2]
’’اور حضرت داؤد و سلیمان علیہما السلام جب ایک کھیتی کے بارے میں فیصلہ کر رہے تھے جبکہ اس کھیتی میں ایک دو سری قوم کی بکریاں چر گئی تھیں اور ہم ان کے اس فیصلے کو دیکھ رہے تھے۔ پس ہم نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو اس مسئلے کی سوجھ بوجھ عطا کر دی اور ہم نے ہر ایک یعنی حضرت داؤد و حضرت سلیمان علیہما السلام کو حکمت اور علم دیا تھا۔‘‘
حضرت بریدۃ بن حصیب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی شخص کو کسی لشکر کا امیر بنا کربھیجتے تھے تو اس کو چند نصیحتیں کرتے تھے جن میں سے ایک یہ بھی ہوتی تھی:
’’ وإذا حاصرت أھل حصن‘ فأرادوک أن تنزلھم علی حکم اللّٰہ ‘ فلا تنزلھم علی حکم اللّٰہ ‘ ولکن أنزلھم علی حکمک‘ فإنک لا تدری أتصیب فیھم حکم اللّٰہ أم لا۔‘‘[3]
’’اور جب تم کسی قلعے والوں کا محاصرہ کر لو اور وہ یہ چاہیں کہ تم ان سے اللہ کے حکم کے مطابق معاملہ کرو تو ان سے اس شرط پر معاہدہ نہ کرو بلکہ ان سے اس بات پر معاہدہ کرو کہ تم ان کے ساتھ فلاں معاملہ کرو گے کیونکہ تم یہ بات نہیں جانتے کہ ان کے بارے میں تم اللہ کے حکم کو پہنچ بھی پاتے ہو یا نہیں ۔‘‘
ا سی طرح اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے :
’’ إذا حکم الحاکم فاجتھد فأصاب فلہ أجران و إذا اجتھد فأخطأ فلہ أجر۔‘‘[4]
’’جب کوئی حاکم اجتہادکرتا ہے اور وہ صحیح رائے تک پہنچ جاتا ہے تو اس کے لیے دو گنا اجر ہے اور جب وہ اپنے اجتہاد میں خطا کرتا ہے تو اس کے لیے ایک گنا اجر ہے۔‘‘
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ منبر پر کھڑے ہو کر فرمایا:
’’یأیھا الناس إن الرأی إنما کان من ر سول اللّٰہ مصیباً‘ لأن اللّٰہ کان یریہ‘ وإنما ھو منا الظن والتکلف۔‘‘[5]
’’اے لوگو! اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے در ست ہوا کرتی تھی کیونکہ آپ کو سجھانے والے اللہ تعالیٰ تھے جبکہ ہماری رائے ظنی ہوتی ہے اور تکلف ہے۔‘‘
حضرت طاؤ س رحمہ اللہ ‘ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ جب ان سے کسی ایسے مسئلے کے بارے میں سوال کیا جاتا جس میں
|