Maktaba Wahhabi

69 - 214
’’إن أمتی لا تجتمع علی ضلالۃ۔‘‘[1] ’’بے شک میری امت گمراہی پر اکھٹی نہیں ہو گی۔‘‘ بعض روایات میں الفاظ ہیں : ’’لا تجتمع أمتی علی خطأ۔‘‘[2] ’’میری امت غلطی پر اکھٹی نہیں ہو گی۔‘‘ امت کے اجماع سے مراد مجتہدین علمائے امت کا اجماع ہے کیونکہ شرعی احکام کا علم حاصل کرنے میں امت علمائے مجتہدین کی متبع ہوتی ہے لہٰذا علمائے مجتہدین کے اجماع سے امت کا اجماع از خود حاصل ہو جاتاہے۔ اس نکتے کو امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ’مجموع الفتاوی‘ میں واضح کیا ہے۔ لیکن اگر کسی مسئلے میں مجتہدین کے مابین اختلاف ہو تو اس مسئلے میں حق بات اور شرعی حکم ایک ہی ہوتا ہے یا ایک سے زائد بھی ہو سکتے ہیں ۔شیخ عبد الوھاب عبد السلام طویلہ حفظہ اللہ لکھتے ہیں : ’’إذا صدر الاجتھاد من أھلہ‘ و وقع فی محلہ فھل یکون کل ما أدی إلیہ حقاً وصواباً؟ اختلف العلماء فی ذلک۔واختلافھم ھذا مبنی علی اختلافھم فی أنہ ھل اللّٰہ تعالیٰ حکم معین فی جمیع أفعال العباد نصب علیہ دلیلاً وأوجب طلبہ‘أو لا؟ ذھب قوم إلی أن الحق فی المسائل الإجتھادیۃ‘ دون الإعتقادیۃ و القطعیۃ‘ متعدد‘ ولیس اللّٰہ حکم أو حق معین فی المسألۃ قبل اجتھاد المجتھد‘ بل الحکم بالنسبۃ للمجتھد ما أداہ إلیہ اجتھادہ‘ وکل مجتھد مصیب فی المسائل العملیۃ ظاھراً وباطناً۔۔۔وذھب الجمھور إلی أن الحق واحد لا یتعدد‘ و أن اللّٰہ تعالیٰ حکماً معیناً فی کل مسألۃ اجتھادیۃ‘ وقد نصب علی الحق دلیلاً یعرف بہ ‘ وعلی المجتھد أن یفرغ و سعہ فی الا ستدلال‘ ویتقی اللّٰہ ما ا ستطاع‘ وقد یخطي وربما یصیب‘ بحسب توفیق اللّٰہ تعالی‘ وقدرتہ علی معرفۃ الدلیل۔‘‘[3] ’’جب اجتہاداہل لوگوں سے صادر ہو اور اس محل میں ہو جو اجتہاد کا اصل محل ہے تو کیا اس صورت میں ہر مجتہد حق بجانب اور در ست ہو گا؟۔علماء کا اس مسئلے میں اختلاف ہے۔علماء کے اس اختلا ف کی بنیاد یہ ہے کہ بندوں کے تمام افعال میں اللہ تعالیٰ نے کوئی معین حکم مقرر کیا ہے اور اس کی علامات بھی بتا دی ہیں اور ا سی معین حکم کی تلاش کو فرض قرار دیا ہے یا ایسا نہیں ہے۔علماء کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ اعتقادی اور قطعی مسائل کے علاوہ اجتہادی مسائل میں حق ایک سے زائدہیں ۔اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے مجتہد کے اجتہاد سے پہلے کسی مسئلے میں کوئی معین حکم یا حق مقرر نہیں کیا ہے بلکہ اس مسئلے میں حکم وہی ہوتا ہے جس کی طرف مجتہد کا اجتہاد لے جائے اور ہر مجتہد عملی مسائل میں ظاہر و باطن دونوں اعتبار سے مصیب ہوتا ہے۔۔۔جبکہ جمہور علماء کی رائے یہ ہے کہ حق کسی مسئلے میں ایک ہی ہوتا ہے متعدد نہیں ہوتااور ہر اجتہادی مسئلے میں اللہ تعالیٰ نے ایک معین حکم جاری فرمایا ہے اور اس حق کی معرفت کے لیے دلائل بھی مقرر کر دیے ہیں ۔اور مجتہد پر یہ بات لازم ہے کہ وہ ا ستدلال میں اپنی پوری قوت صرف کرے اور اللہ تعالیٰ سے حتی الامکان ڈرے۔بعض اوقات ایک مجتہد خطا بھی کرتا ہے اور بعض اوقات اس کی رائے در ست بھی ہوتی ہے اور حق بات کا حصول اللہ کی توفیق اور دلیل کی معرفت پر مجتہد کی قدرت سے ہوتا ہے۔‘‘ ہماری رائے میں دو سرا موقف حق ہے اور قرآن و سنت کے کئی ایک دلائل سے اس موقف کی تائید ہوتی ہے۔قرآن مجید کی ایک آیت مبارکہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
Flag Counter