ان کو صریح نص کا علم نہ ہوتا تھاتو وہ کہتے تھے۔
’’إن شئتم أخبرتکم بالظن۔‘[1]
’’اگر تم چاہو تو میں تم کو ظن کے بارے میں خبر دوں ۔‘‘
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے مروی ہے:
’’کل مجتہد مصیب والحق عند اللّٰہ تعالیٰ واحد۔‘‘[2]
’’ہر مجتہد مصیب ہے لیکن حق اللہ کے ہاں ایک ہی ہے۔‘‘
علماء کا اس بات پربھی اجماع ہے کہ ایک مجتہد اپنے قول سے رجوع کر سکتا ہے۔اگر دونوں اقوال حق ہوتے تو اس رجوع کا انکار کیا جاتا لیکن کسی عالم نے بھی اپنے پہلے قول سے رجوع کو غلط نہیں کہا۔صحابہ رضی اللہ عنہم اورعلمائے سلف نے ایک دو سرے کی اجتہادی آراء اور فتاوی کو خطا بھی ٹھہرایا ہے لہذا ان کے نزدیک حق ایک ہی تھا۔ شیخ عبد الرحمن بن عبد الخالق الیو سف حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ولا یشترط بالضرورۃ أن یکون کل من قال قولاً فی الدین أن یکون لہ صواباً موافقاً للحق بل کل من اجتھد فی ھذا الدین بعد ر سول اللّٰہ وإلی یومنا ھذا قد أصاب وقد أخطأ وقد رد علی غیرہ ورد غیرہ علیہ کما قال الامام مالک أیضا: ما منا إلا قد رد ورد علیہ۔‘‘[3]
’’یہ بات ضرورت کے درجے میں معلوم ہے کہ جس نے بھی دینی مسائل میں کسی رائے کا اظہار کیاتو لازم نہیں ہے کہ وہ حق بات ہی ہو بلکہ اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سے لے کر آج تک جس نے بھی کسی دینی مسئلے میں اجتہادکیا تو اس کی رائے بعض اوقات صحیح ہوتی ہے اور بعض حالات میں وہ خطا بھی کرتا ہے۔ ایک مجتہد دو سرے مجتہدین پر رد کرتاہے جبکہ دو سرے اس پر رد کرتے ہیں جیسا کہ امام مالک رحمہ اللہ نے کہاہے کہ ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے کہ جس نے دو سروں کے اجتہاد کو رد نہ کیا ہو اور نہ اس کے اجتہاد کو رد کیا گیا ہو۔‘‘
تمام مجتہدین کو مصیب ٹھہرانے کا نتیجہ’اجتماع نقیضین‘ کی صورت میں نکلے گا جو ممتنع ہے۔ا سی لیے أئمہ مجتہدین بھی اپنے اجتہادات کو قطعی نہیں سمجھتے تھے۔ شیخ عبد الرحمن بن عبد الخالق الیو سف حفظہ اللہ لکھتے ہیں :
’’ فإما أن نعرف الحکم من نص قرآنی أو حدیث نبوی أو إجماع للصحابۃ رضوان اللّٰہ علیھم وأما أن یعرف ھذا با ستنباط وفھم من آیۃ أو حدیث وھذا الفھم یصیب ویخطیٔ ولذلک کان الاجتھاد الذی ینبنی علی الفھم والا ستنباط ظنیاً لأن الفھم والا ستنباط غیر معصوم ولذلک قال الإمام مالک : کل رجل یؤخذ من قولہ ویرد علیہ إلا صاحب ھذا القبر یعنی النبی صلي اللّٰه عليه وسلم ‘‘[4]
’’یا تو کوئی حکم ہمیں قرآن کی نص یا حدیث نبوی یاصحابہ رضی اللہ عنہم کے اجماع سے معلوم ہو گا اور یا وہ کسی قرآن کی آیت یاحدیث سے م ستبط شدہ فہم ہو گا اور یہ فہم کبھی صحیح ہوتا ہے اور کبھی غلط ہوتا ہے ۔ا سی لیے وہ اجتہادجو مجتہد کے فہم پر مبنی ہوتا ہے ظنی ہوتا ہے کیونکہ فہم و استنباط غیر معصوم ہیں ا سی لیے امام مالک رحمہ اللہ نے کہا ہے:ہر شخص کے قول کو قبول بھی کیا جائے گا اور اس کا رد بھی کیا جائے گا سوائے اس صاحب قبر کے قول کے یعنی اللہ کے ر سول صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی ہے۔‘‘
پس اس بحث کا خلاصہ کلام یہ ہے کہ مجتہد کا اجتہاد کبھی ’صحیح ‘ ہوتا ہے اور کبھی ’غلط‘۔یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک مجتہد کا ہر اجتہاد ہی ’صحیح‘ ہو۔ مجتہد کا اجتہاد ظن غالب کے طور پر اس کے نزدیک ’صحیح ‘ ہوتاہے۔ کسی اجتہاد کے خارج میں قطعی طور پر صحیح ہونے کی صورت یہ ہے کہ اس پراجماع منعقد ہو جائے۔علاوہ ازیں اجتہاد حالات و اشخاص کے ا عتبار سے فرض‘ مندوب اور حرام ہو سکتا ہے۔
٭٭٭
|