Maktaba Wahhabi

118 - 214
’’لذلک أصبح من مصلحۃ الفقہ الاسلامی نفسہ أن یقوم فیہ اجتھاد من نوع آخر‘ ھو اجتھاد الجماعۃ علی طریقۃ الشوری العلمیۃ فی مؤتمرات فقھیۃ تضم فحول العلماء من مختلف المذاھب والأقطار‘ لیفوا حاجۃ العصر من ھذا الفقہ الاسلامی الفیاض الذی ینضب معینہ۔وھذا الشوری ھی الطریقۃ التی کان یلجأ إلیھا الخلفاء الراشدون فی المشکلات العلمیۃ والسیا سیۃ کلما حزبھم أمر۔وقد کان لعمر بن الخطاب شوری خاصۃ وشوری عامۃ۔فشوراہ الخاصۃ کانت تختص بعلیۃ الصحابۃ من المھاجرین الأولین و کبار الأنصار وھؤلاء یستشیرھم فی صغیر أمور الدولۃ وکبیرھا۔وأما الشوری العامۃ فقد کان یجمع فیھا ذوی الرأی من أھل المدینۃ أجمعین فی الأمر الخطیر من أمور الدولۃ فیجمعھم فی المسجد النبوی وإذا ضاق بھم جمعھم خارج المدینۃ وعرض علیھم الأمر ورأیہ فیہ۔‘‘[1] ’’ اس لیے فقہ اسلامی کی مصلحتیں اس بات کی متقاضی ہیں ‘ اب اس میں ایک نئی نوعیت کا اجتہاد جاری کیا جائے اور وہ شورائی و علمی طریقے پر ان فقہی کانفرنسوں کے ذریعے اجتماعی اجتہا دہے جو مختلف مذاہب و ممالک کے قابل علماء پر مشتمل ہوں تاکہ وہ اس فیاض فقہ اسلامی سے عصر حاضر کی مشکلات کا حل تلاش کر سکیں کہ جس کا چشمہ اب خشک ہو رہا ہے۔ اور یہ شوری وہی منہج ہے جس کی طرح خلفائے راشدین علمی و سیا سی مشکلات کے پیش آنے پر لپکتے تھے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی دو شوری تھیں : ایک شورائے عام اور دو سری شورائے خاص‘ آپ کی خاص شوری جلیل القدر مہاجرین و انصار صحابہ رضی اللہ عنہم پر مشتمل تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس شوری سے سلطنت اسلامیہ کے چھوٹے بڑے تمام معاملات میں مشورہ کرتے تھے۔ جہاں تک شورائے عام کا معاملہ ہے تو اس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ مدینہ کے اہل رائے افراد کو جمع کرتے اور ان سے سلطنت اسلامیہ کے بڑے بڑے مسائل میں مشورہ کرتے تھے۔ یہ افراد شروع میں مسجد نبوی میں جمع ہوتے تھے بعد میں جب مسجد ان کے لیے تنگ ہو گئی تو مدینہ سے باہر ان کا اجتماع بلواتے تھے۔ ان پر متعلقہ مسئلہ پیش کرتے اور پھر اس کے بارے میں رائے لیتے تھے۔‘‘ ڈاکٹر توفیق الشاوی حفظہ اللہ کے نزدیک اجتماعی و شوارئی اجتہاد کی سات قسمیں ہیں اور ان میں سے ہر ایک کا دائرہ کار بھی مختلف ہے۔ ڈاکٹرصاحب کا کہنا یہ ہے کہ ان میں سے چار قسم کی شوری ایسی ہے کہ جس کے فیصلے لازماً نافذ نہیں ہوتے ۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں : ’’۱۔طلب الفردمشورۃ غیرہ للا ستنارۃ بھا فی أمر من أمورہ الشخصیۃ أو الخاصۃ‘ وھذہ ھی الا ستشارۃ‘ أو المشورۃ الاختیاریۃ۔۲۔طلب ھیئۃ أو شخص۔یتولی إحدی ال سلطات أو الولایات۔لرأی الخبراء والمتخصصین؛ لی ستعین بہ فی اتخاذ قرارہ فی أمر یختص بالتصرف فیہ طبقاً للد ستور أو الشریعۃ‘ وھذہ ا ستشارۃ أیضاً‘ ینتج عنھا مشورۃ اختیاریۃ۔۳۔طلب القاضی من العلماء أو المجتھدین رأیھم فی حکم الشرع لیستنیر بہ قبل أن یصدر حکمہ فی حدود اختصاصہ و ولایتہ‘ وھذہ ا ستشارۃ أو مشورۃ علمیۃ أو فتوی فقھیۃ۔۴۔الفتوی بشأن حکم شرعی‘ المقدمۃ لفرد من الأفراد أو ھیئۃ عامۃ سواء أطلبت ذلک أم لم تطلبہ‘ و ھذہ مشورۃ أو فتوی فقھیۃ۔‘‘[2] ’’۱۔ کسی شخص کا اپنے علاوہ کسی دو سرے سے مشورہ طلب کرنا تاکہ وہ اس مشورے کے ذریعے اپنے ذاتی معاملات میں رہنمائی لے سکے۔یہ مشورہ ‘اختیاری مشورہ کہلائے گا۔۲۔ کسی ادارے یا شخص‘ جو کہ اختیار یا اقتدار کا مالک ہو‘ کا ماہرین اورمتخصصین سے رائے لیناتاکہ وہ کسی مخصوص معاملے میں د ستور یا شریعت کے موافق تصرف کے لیے‘ رائے کے ذریعے اپنی قرارداد پاس کرنے میں مدد حاصل کر سکے۔یہ مشورہ بھی اپنے نتیجے کے اعتبار سے اختیاری مشورہ ہی ہے۔۳۔ قاضی کا علماء یا مجتہدین سے کسی شرعی حکم کے بارے میں رائے طلب
Flag Counter