Maktaba Wahhabi

119 - 214
کرناتاکہ وہ اپنی خاص حدود اور اختیارات کے دائرے میں کوئی حکم جاری کرنے سے پہلے اس مشورے سے رہنمائی حاصل کر سکے۔یہ مشورہ بھی ایک علمی مشورہ یا فقہی فتوی ہے۔۴۔ کسی مسئلے کے شرعی حکم کے بارے میں کسی فرد یا ادارے کا فتوی جاری کرنا‘ چاہے اس سے فتوی کے بار ے میں مشورہ طلب کیا گیا ہو یا نہ ہو۔یہ بھی فقہی فتوی یا مجرد ایک مشورہ ہے۔‘‘ اس کے برعکس ان کے نزدیک شوری کی تین قسمیں ایسی ہیں ‘جن کے فیصلے لازماً لاگو و نافذ ہوتے ہیں ۔ڈاکٹر توفیق الشاوی حفظہ اللہ ان اقسام کے بارے میں لکھتے ہیں : ’’۵۔تشاور الأمۃ أو الجماعۃ أو من یمثلونھا من أھل الحل والعقد بشأن قرار سیا سی أو اجتماعی۔۔إلخ‘ مثل اختیار رئی س أو ولی الأمر أو أی شأن آخر ھام من الشؤون العامۃ وصدور قرار بالإجماع أو الأغلبیۃ منھم‘ فقرارھم فی ھذہ الحالۃ من قرارات الشوری الجماعیۃ الملزمۃ۔۶۔تشاور ممثلی الأمۃ أھل الحل والعقد المفوضین من الأمۃ لوضع نظامھا الد ستوری أو قوانینھا الأ سا سیۃ‘ أو تحدید شروط البیعۃ لمن یتولی الأمر أو الرئا سۃ‘ إذا توصلوا لقرار بإجماع الکافۃ أو إجماع الجمھور وھذہ حالۃ من حالات الشوری الفقھیۃ الد ستوریۃ الملزمۃ؛ لأنھا تضع قانونا أ سا سیاً أود ستورا۔۔۔۷۔قرار المجتھدین وأھل العلم با ستنباط حکم فقھی‘ فیما لم یرد بشأنہ نص فی الکتاب والسنۃ إذا صدر بالإجماع وأقرتہ الأمۃ بالإجماع‘ ویکون ھذاحکماً فقھیاً ملزماً؛ لأنہ إجماع۔‘‘[1] ’’۵۔ امت یا ایک جماعت یا امت کے نمائندہ اہل حل و عقد کی تنظیم کی کسی سیا سی یا معاشرتی مسئلے سے متعلق اجتماعی قرارداد کے بارے میں باہمی مشورہ کرنامثلاًصدریا کسی صاحب أمر کی تعیین یا ان کے علاوہ اجتماعی معاملات میں سے کسی اہم معاملے کے بارے باہمی مشورہ کرنااور پھر سب کے یا جمہور کے اتفاق سے کسی قراداد کا پاس ہوجانا۔ان حالات میں یہ قرارداد ایسی ہو گئی جو اجتماعی شوری کی لازم ہونے والی قراردادوں میں شامل ہو گی۔۶۔ امت کے ان نمائندہ اہل حل و عقد کی مشاورت کہ جن کو امت نے اپنے د ستوری نظام یا بنیادی قوانین کو وضع کرنے یا ولی الأمر اور صاحب اقتدار کی بیعت کی شرائط کی تحدید کے لیے مقرر کیا ہو۔جب تمام یا اکثراہل حل و عقد کا کسی قرارداد پر اتفاق ہو جائے گا تویہ ایک ایسی فقہی اور د ستوری شوری ہو گی کہ جس کا نفاذ لازم ہے کیونکہ یہ شوری بنیادی قوانین یا د ستور وضع کرے گی۔۔۔ ۷۔ مجتہدین اور اہل علم کی کسی ایسے فقہی حکم کو مستنبط کرنے میں کہ جس کے بارے میں قرآن یا سنت میں کوئی نص وارد نہ ہوئی ہو‘قرار داد منظور کرنا۔اگر تو یہ قرارداد مجتہدین کے اتفاق سے طے پاتی ہے اور امت بھی اس پر متفق ہوجاتی ہے تو یہ ایک لازم فقہی حکم ہو گاکیونکہ یہی اجماع ہے۔‘‘ سابقہ طویل بحث کے نتیجے میں ہمارے سامنے درج ذیل میدان واضح ہوتے ہیں کہ جن میں اجتماعی اجتہاد وقت کا ایک اہم تقاضا اور ضرورت ہے۔ ٭ جدید مسائل میں اجتماعی اجتہاد ٭ فقہی اقوال میں ترجیح کے لیے اجتماعی اجتہاد ٭ متغیرات میں اجتماعی اجتہاد ٭ مصلحت کے تغیرمیں اجتماعی اجتہاد ٭ ز مان و مکان کے تغیر میں اجتماعی اجتہاد ٭ عرف کے تغیر میں اجتماعی اجتہاد
Flag Counter