مثلا)‘ بصفۃ غیر منتظمۃ‘ من قطر واحد أومن عدۃ أقطار‘ وقیامھم بتدار س قضیۃ ما‘ وإصدار رأیھم الجماعی فیھا۔ومثل ھذا یحصل فی بعض الندوات والمؤتمرات العلمیۃ۔۴۔قیام أحد العلماء أو عدد منھم بإعداد فتوی‘ أو اجتھاد علمی ما‘ ثم عرضہ علی عدد من العلماء‘ یکثر أو قل‘ وقیامھم بدرا ستہ وتقدیم آرائھم فی شأنہ‘ ثم صیاغتہ علی نحو یقبلونہ ویوقعون علیہ بالموافقۃ۔ومثل ھذا یحصل الیوم مرارا‘ خاصۃ فی بعض الأحداث والنوازل الطارئۃ‘ التی یطلب فیھا الموقف الشرعی للعلماء بصورۃ م ستعجلۃ۔‘‘[1]
’’۱۔ کسی ایک براعظم پر مشتمل کوئی ادارہ ہو جو عام ممالک اورمذاہب اسلامیہ کے محدود مجتہد علماء کو شامل ہو۔یہ علماء پیش آمدہ مسائل کا ان کے نظائر کی روشنی میں اجتماعی مطالعہ کریں ۔پھر اس بارے میں اتفاقی یا اکثریتی رائے سے فیصلہ جاری کریں ۔ اس کی مثال وہ عالمی فقہی مجال س ہیں کہ جن کی بنیاد کوئی ایک مخصوص مذہب نہیں ہے جیسا کہ’اسلامی فقہی اکیڈمی‘ مکہ مکرمہ یا ’اسلامی فقہ اکیڈمی‘جدہ یا ’ادارہ تحقیقات اسلامیہ‘ أزہر یا ’شمالی امریکہ کی فقہ اکیڈمی‘ یا ’یورپین کونسل برائے افتاء و تحقیق ‘ہے۔۲۔ ا سی قسم کی کسی مجلس کا ہونا لیکن وہ کسی ایک خطے یا مذہب کے علماء پر مشتمل ہو۔ اس کی مثال فقہی مجال س یا علاقائی و مذہبی افتاء کے ادارے ہیں ۔ اس قسم کے ادارے اس وقت اکثر و بیشتر اسلامی ممالک میں موجود ہیں اور ان پرکام ہو رہا ہے۔۳۔ کسی ایک علاقے یا ایک سے زائدممالک سے تعلق رکھنے والے علماء کی ایک کثیر تعداد مثلاً د سیوں علماء کا کسی نظم کے بغیر جمع ہونااور کسی بھی مسئلے کے بارے میں باہمی گفتگو کرنا اور پھر اس کے بارے میں ایک اتفاقی فیصلہ جاری کرنا۔ اس کی مثال بعض کانفرن سیں اور سیمینارز وغیرہ ہیں ۔۴۔ ایک یا ایک سے زائد علماء کا کسی قسم کا علمی اجتہاد یا فتوی تیار کرنا اور پھر اس کو علماء کی ایک قلیل یاکثیرجماعت پر پیش کرنا۔ان علماء کا اس تحقیق کو پڑھنااور اس مسئلے کے بارے میں اپنی آراء پیش کرنا۔پھر اس تحقیق کو اس طرح شکل دینا کہ جس طرح علماء نے اس کو قبول کیا ہو اور اس کے ساتھ موافقت اختیار کی ہو۔‘‘
شیخ عبد الرحمن عبد الخالق حفظہ اللہ شورائی اجتہاد کی دو قسمیں بیان کی ہیں : شوری خاص اور شوری عام‘ان دونوں میں سے ہر ایک شوری کااجتہادی دائرہ کار کیا ہو گا‘ یہ ان کے بقول اس شوری کے درجے ‘اراکین کی صفات اور زیر بحث معاملے کے اعتبار سے ہوگا۔شیخ فرماتے ہیں :
’’۱۔أن أھل الشوری ھم عموم الناس إذا کان الأمر سیتعلق بعمومھم کاختیار الخلیفۃ و الحاکم وإعلان الحرب فھذہ الأمور العامۃ لا بد فیھا من رأی عام وموافقۃ عامۃ۔۲۔وأما الأمور الخاصۃ فی ستشار فیھا أھل ھذہ الخصوصیۃ وأھل العلم والدرایۃ بھا۔ففی تنفیذ الأعمال العسکریۃ ی ستشار أھل الرأی فی ذلک وفی الأعمال الصناعیۃ أھل الخبرۃ فیھا وھکذا۔۳۔وفی سیا سۃ الأمۃ وإدارۃ شؤونھا بوجہ عام فمجلس شوری یختار من أھل العلم والرأی من المسلمین بشروطہ السابقۃ بعلم ورضی الناس عنھم۔‘‘[2]
’’۱۔اگر تو عمومی امور کا معاملہ ہے جوعام لوگوں سے متعلق ہے جیساکہ کسی خلیفہ یا حاکم کی تقرری یا اعلان جنگ وغیرہ تو اس مسئلے میں اہل شوری عامۃ الناس ہوں گے کیونکہ ان مسائل میں عامۃ الناس کی رائے اور ان کی موافقت ایک لازمی و لابدی أمر ہے۔۲۔ اور جہاں تک خاص أمور کا تعلق ہے توان میں ان امور کے ماہرین‘ اہل علم اور سوجھ بوجھ رکھنے والے لوگوں سے مشورہ کیا جائے گا۔مثال کے طور پرعسکری امور میں ان امور کے ماہرین اور صنعتی امور میں اس میدان کے ماہرین سے مشورہ کیا جائے گا۔۳۔ عمومی پہلو سے امت کی سیا ست اور اس کے مختلف امور کے انتظام کے لیے ایک مجلس شوری ہوگی جو مسلمانوں کے ان اہل علم اور أصحاب رائے پر مشتمل ہو گی جن کی شرائط پہلے گزر چکی ہیں یعنی وہ أصحاب علم و فضل ہوں اورشوری کا رکن ہونے میں انہیں لوگوں کی رضا اوراعتماد حاصل ہو۔ ‘‘
شیخ مصطفی الزرقاء حفظہ اللہ نے بھی شورائی اجتہاد کو اس کے مجال کے اعتبار سے دو حصوں میں تقسیم کیاہے۔ وہ فرماتے ہیں :
|