Maktaba Wahhabi

116 - 214
علی واقع الأمۃ فی جمیع الأقطار۔‘‘[1] ’’مستقبل میں اجتماعی اجتہادکی ایک قسم نہ ہو گی بلکہ کل کو یہ تین انواع میں تقسیم ہو جائے گااور وہ یہ ہیں : ۱۔مقامی و ملکی سطح پر اجتماعی اجتہاد‘ اس سے ہماری مراد وہ عملی‘ علمی اور در سی انضباط ہے ‘ جس کو لے کر کسی علاقے میں رہائش پذیر مجتہدین کھڑے ہوں اور اس علاقے کے عوام کے عمومی مسائل میں اللہ کی مراد کا پختہ مفہوم حاصل کیا جائے اور پھر ا سی علاقے میں عامۃ الناس کے مسائل پر اس الہی مراد کا اطلاق و تطبیق کی جائے۔۲۔برأعظمی اجتماعی اجتہاد‘ اس سے ہماری مرادوہ علمی‘ عملی اور در سی انضباط ہے ‘ جس کو کسی برأعظم کے مختلف ممالک کے مجتہدین لے کر کھڑے ہوں اور ان کا مقصود اس براعظم کے افراد کی عمومی زندگی سے متعلق مسائل میں اللہ کی مراد تک پہنچنا اور پھر اس کے رہنے والوں پر اس مراد الہی کی تطبیق و اطلاق کرناہے۔۳۔عالمی اجتماعی اجتہاد‘ اس سے ہماری مرادوہ علمی‘ عملی اور در سی انضباط ہے ‘ جس کو سارے عالم کے مختلف ممالک کے مجتہدین لے کر کھڑے ہوں اورپھر امت کی سطح پر مسلمانوں کی عمومی زندگی سے متعلق مسائل میں اللہ کی مراد تک پہنچنے کی کوشش کریں اور پھر اس مراد الہی کا لوگوں کے مسائل و حالات پر اچھی طرح اطلاق کریں ۔‘‘ مولانا زاہد الراشدی حفظہ اللہ نے اجتماعی اجتہاد کے ذیل میں مجتہدین کے اعتبار سے اس کے چار قسم کے دائرہ کار کا تذکرہ کیا ہے۔ مولانا فرماتے ہیں : ’’پہلی بات ’’اجتماع‘‘ کے بارے میں عرض کروں گا کہ جب ہم اجتماعی اجتہاد کی بات کرتے ہیں تو’’اجتماع‘‘ کے لفظ سے کیا مراد ہوتا ہے؟ اس کے مختلف دائرے ہیں ۔ ایک دائرہ یہ ہے کہ کسی مسئلہ پر اجتہادی نقطہ نظر سے غور کرنے کی ضرورت محسوس ہو تو یہ کام شخصی طور پر نہ کیا جائے بلکہ چند افراد مل کر اس ذمہ داری سے عہدہ بر آ ہوں ۔ اس سلسلے میں کراچی کی اس علمی و تحقیقی مجلس کی مثال دی جا سکتی ہے جس میں مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ ‘ حضرت مولانا سید محمد یو سف بنوری رحمہ اللہ ‘ حضرت مولانا مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمہ اللہ اور دیگر أکابر علماء عملی مسائل پر باہمی مشاورت کے ساتھ رائے قائم کیا کرتے تھے۔ اس قسم کی مجال س کا اہتمام بریلوی اور اہل حدیث مکاتب فکر میں بھی یقیناً ہوتا ہو گا مگر میری معلومات میں اس کی مثال وہی ہے جس کا میں نے تذکرہ کر دیا ہے۔دو سرا دائرہ یہ ہے کہ مختلف مکاتب فکر کے علمائے کرام مل بیٹھ کر کسی اجتہادی مسئلہ میں غور کریں اور مشترکہ موقف قائم کریں ۔ اس سلسلہ میں ۳۱علمائے کرام کے ۲۲د ستوری نکات سمیت متعدد مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں ۔ تیسرا دائرہ یہ ہے کہ قدیم اور جدید ماہرین کا اجتماع ہو اور دینی علوم کے ماہرین کے ساتھ عصری قانون اور علوم کے ماہرین بھی اجتہاد کے عمل میں شریک ہوں ۔جبکہ چوتھا دائرہ یہ ہے کہ مختلف ممالک کے علمائے کرام بین الاقوامی ماحول میں اجتہاد کے عمل کا اہتمام کریں ۔‘‘[2] ڈاکٹر أحمد رئی سونی حفظہ اللہ نے مجتہدین کے اعتبار سے اجتماعی اجتہاد کی چار مختلف قسم کی مجال س کا تذکرہ کیا ہے جو اپنے جغرافیے‘ حالات اور آبادی کے اعتبار سے اجتماعی اجتہاد کریں گی۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں : ’’۱۔وجودہ ھیئۃ قارۃ‘ تضم علماء مجتھدین محددین‘ من عموم الأقطار والمذاھب الاسلامیۃ‘ تجتمع وتتدار س القضایا المعروضۃ علی أنظارھا‘ وتصدر فیھا عن رأی اتفاقی أو أغلبی۔والمثال ھنا ھو المجامع الفقھیۃ العالمیۃ غیر المذھبیۃ مثل: المجمع الفقھی الاسلامی بمکۃ۔مجمع الفقہ الاسلامی بجدۃ۔مجمع البحوث الاسلامیۃ بالأزھر۔المجمع الفقھی لأمریکا الشمالیۃ۔المجلس الأوروبی للإفتاء والبحوث۔۲۔وجود ھیئۃ مماثلۃ‘ لکنھا تقتصر علی علماء من قطر واحد‘ أو مذھب واحد۔والأمثلۃ ھنا ھی المجامع الفقھیۃ وھیئات الإفتاء القطریۃ‘ أو المذھبیۃ۔وقد أصبحت ھذہ الھیئات موجودۃ ومعمولاً بھالدی معظم الدول الاسلامیۃ۔۳۔اجتماع عدد کثیر من العلماء(عشرات
Flag Counter