Maktaba Wahhabi

700 - 702
شریعت کو نقل کرنا ایک شخص کے نقل کرنے سے بہتر ہے۔جب اگر ہر گروہ میں سے ایک جماعت کے روایت نقل کرنے سے حجت قائم ہوجاتی ہے ؛ تواس سے مقصود حاصل ہوجاتا ہے۔ تمام بنی آدم کے ہاں اہل تواتر کے نقل کرنے میں اتنی بڑی عصمت پائی جاتی ہے کہ ایسی عصمت انبیاء کرام علیہم السلام کے علاوہ کہیں بھی نہیں پائی جاتی۔ اگر حضرت ابو بکر وعمر و عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کے بارے میں اگر کہاجائے کہ یہ معصوم ہیں ‘ تو جو کچھ باقی مہاجرین و انصار کی جماعت نے نقل کیا وہ ان کی نقل سے زیادہ بلیغ ہے۔ مزید برآں کہ [جب نقل کرنے والا ایک ہو تو] بہت سارے لوگ ناقل کی عصمت پر تنقید کرتے ہیں ؛ تو اس سے مقصود حاصل نہیں ہوتا۔ تو پھر اس صورت میں کیا کہا جاسکے گا جب کسی راو ی کو امت کے بہت سارے لوگ کافر کہتے ہوں ؟ جب بہت سارے خبر دینے والے لوگ کسی چیز کے بارے میں خبر دے رہے ہوں تو ا سے مقصود ِتواتر حاصل ہوجاتا ہے اگرچہ ان کی عدالت کے بارے میں علم نہ بھی ہو۔ دوسری وجہ:....ان سے پوچھا جائے گا کہ : کیا تمہاری مراد یہ ہے کہ امام کو شریعت کا محافظ ہونا چاہیے ؛ اگرچہ وہ معصوم نہ بھی ہو؟یا شریعت کا محافظ صرف وہی ہوسکتا ہے جو معصوم بھی ہو؟ اگر اس کے جواب میں وہ کہیں کہ معصوم ہونا شرط ہے ؛ تو یہ پہلی وجہ ہے ؛ اس کا جواب کئی بار گزر چکا ہے۔ اور اگر کہیں کہ صرف شریعت کی حفاظت شرط ہے تو پھر ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کتاب و سنت کے سب سے بڑے محافظ تھے؛ اور ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہماسے بڑے عالم تھے۔بلکہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہماآپ سے بڑھ کر عالم دین[اور محافظ ِشریعت] تھے۔ لہٰذا شیعہ کا اجماع کا دعوی باطل ٹھہرا ۔ تیسری وجہ:....ان سے پوچھا جائے گا کہ : کیا آپ محافظ شریعت اور معصوم ہونے سے یہ مراد لیتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ معصوم تھے، لہٰذا شرع کی صحت معلوم کرنے کے لیے کسی مسئلہ کا آپ سے منقول ہونا ضروری ہے۔تو پھر کیا کسی چیز کا صحیح ہونا آپ سے منقول ہوئے بغیر بھی معلوم ہوسکتا ہے ؟ اگر شیعہ جواب میں کہیں کہ ایسا ہوسکتاہے ؛ تو پھر ہمیں نہ ہی کسی محافظ شریعت کی ضرورت ہے ؛ اور نہ ہی کسی معصوم کی۔ اس لیے کہ جب اس کے بغیر بھی شریعت کے ایک حصہ کی حفاظت ممکن ہے ۔ تو کسی دوسرے حصہ کی حفاظت کے لیے کوئی بھی دوسرا یہ خدمت سرانجام دے سکتا ہے ۔ یہاں تک پوری شریعت کی حفاظت بغیر معصوم کے ممکن ہے۔ اگر شیعہ کہیں کہ : ایسا نہیں بلکہ کسی بھی چیز کی صحت کی معرفت کے لیے اس کا محافظ شرع امام معصوم سے معلوم ہونا ضروری ہے ۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ : تو پھر اس صورت میں امام معصوم سے منقول ہوئے بغیر اہل ارض پر حجت قائم نہیں ہوسکتی۔اس سے یہ لازم آیا کہ اہل زمین پر حجت قائم کرنے کے لیے آپ سے نقل کا ہونا ضروری ہے۔ اور نقل کی صحت اس وقت تک معلوم نہیں ہوتی جب تک آپ کا معصوم ہونا ثابت نہ ہو جائے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے معصوم ہونے کا علم ہمیں اس بات سے حاصل ہوا کہ دوسرا کوئی شخص بالاجماع معصوم نہیں ۔اگر معصومین کا اجماع ہو تو شریعت کی حفاظت اس سے ممکن ہے اور اگر وہ معصومین کا اجماع نہیں ہے تو ہمیں اس کا غلطی سے پاک ہونا بھی معلوم نہیں ہے۔
Flag Counter