Maktaba Wahhabi

698 - 702
ذرا غور تو کیجیے ! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو امیر سریہ مقرر فرمایا ۔ اور پھر ان کے بعد ان کے بیٹے حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کو امیر بنایا ۔بعض لوگوں نے اس پر اعتراض کیا ۔ مگر اس کے باوجو د وہ[ اللہ اور اس کے رسول اور] ان امراء کی اطاعت پر کاربند رہے۔ پس اگر امت پر لازم کردیا جاتا کہ ان میں سے کسی ایک کو امیر مقرر کیا جائے۔ توکوئی یہ بھی گمان کرسکتا تھا کہ ایسی بات ان کے دلوں میں بھی تھی۔ پھر اس سے ان لوگوں کے ہاں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی کوئی اس طرح کی خاص منزلت باقی نہ رہتی کہ اس میں کوئی بھی انسان بات نہ کرسکتا۔ جب لوگ خود آپ رضی اللہ عنہ کی بیعت پر متفق ہوگئے اور مہاجرین و انصار میں سے کسی ایک نے بھی یہ دعوی نہ کیا کہ میں صدیق رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر خلیفہ بننے کا حق دار ہوں ۔ اس لیے کہ انصار نے شروع میں جو اختلاف کیا تھا ؛ وہ اختلاف حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نہیں تھا۔بلکہ ان کا مطالبہ یہ تھا کہ ایک امیر قریش میں سے ہو ؛ اور ایک امیر انصار میں سے ۔ یہ اختلاف تمام قریش کے ساتھ عام تھا۔ جب ان کے سامنے دلیل کی روشنی میں واضح ہوگیا کہ امارت و خلافت قریش کا حق ہے ؛ تو انہوں نے اس اختلاف کو ختم کردیا۔ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں سے کہا تھا : ’’ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ یا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ میں سے کسی ایک کی بیعت کرلو۔‘‘ توحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :’’ بلکہ آپ ہمارے سردار ہیں اور ہم میں سب سے بہتر ہیں ، نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی سب سے زیادہ آپ کو چاہتے تھے۔اللہ کی قسم ! اگر میری گردن مار دی جائے ‘ تومجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں ہوگی؛ اور یہ میرے نزدیک اس بات سے زیادہ پسندیدہ ہے کہ مجھے اس قوم پر امیر بنادیا جائے جس میں ابو بکر رضی اللہ عنہ موجود ہوں ۔‘‘ [1] اور آپ[حضرت عمر رضی اللہ عنہ ] نے سب لوگوں کی موجودگی میں ارشادفرمایا تھا: ’’ آپ ہمارے سردار ہیں ‘ اور ہم سب سے بہتر ہیں ۔ اور ہم سب سے بڑھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو محبوب ہیں ۔‘‘[2] یہ بات صحیح احادیث سے ثابت شدہ ہے۔ پھر اس کے بعد لوگوں نے بغیر کسی لالچ کے ؛ بغیر کسی خوف کے ؛ اوربغیر کسی رشوت کے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی۔ان لوگوں نے آپ کی بیعت کی جنہوں نے درخت کے نیچے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی تھی۔ اور جن لوگوں نے عقبہ کی رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی تھی۔ اور جنہوں نے ہجرت کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی تھی۔اور ان لوگوں نے بھی بیعت کی جنہوں نے ہجرت کے بغیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر اسلام قبول کرتے ہوئے بیعت کی تھی۔ جیسے طلقاء مکہ ؛ اور دوسرے حضرات ۔ ان میں سے کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر امر خلافت کا حق دار ہوں ۔ اور نہ ہی آپ کی بیعت کرتے ہوئے کسی نے یہ کہا کہ : ’’ فلاں آدمی آپ سے زیادہ اس امر کا حق دار تھا ۔‘‘
Flag Counter