Maktaba Wahhabi

696 - 702
ثابت نہیں ہوئی۔ اگریہ کہا جائے کہ ہر امام اپنے بعد والے امام کا ذکر تصریحاً کرتا ہے تو یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب دوسرا امام معصوم ہو ۔حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی شخص معصوم نہیں ۔ بنا بریں قول بالنص عصمت امام کے عقیدہ کی فرع ہے۔اس قول کا فاسد ترین قول ہونا صاف ظاہر ہے۔ اسی طرح اس سے مراد یہ ہوسکتی ہے کہ روافض جس نص کے دعوے دار ہیں کہ حاکم و امیر کی ہر بات واجب الاطاعت ہوا کرتی ہے اوراختلاف کے وقت اسے کتاب و سنت کے معیار پر رکھ کر پرکھنے کی ضرورت نہیں ،یہ بھی فاسد ہے۔ اگر ہم ارشاد باری کے مطابق اختلاف کے وقت اپنے قول کو کتاب وسنت پر پرکھ کر دیکھیں تونص کی حاجت باقی نہیں رہتی۔ اس لیے کہ دین محفوظ ہے ۔اور دین ان حکام یا ولاۃ کے بغیر بھی محفوظ رہے گا۔ خلاصہ کلام ! کسی متعین شخص پر نص کے ہونے سے : اگر یہ مراد ہے کہ اس منصوص علیہ کی اس طرح اطاعت کی جائے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ان کے ہر حکم و نہی میں اور مباح میں کی جاتی ہے ؛ اور کسی ایک کو اس سے اختلاف کرنے کا حق حاصل نہیں ؛ جس کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اختلاف کرے؛ اور اس کے احکام کو ہر صورت میں نافذ کیا جائے ؛ اور امت اس کے ساتھ اس طرح رہے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھی ؛ تو ایسا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کے لیے نہیں ہوسکتا : اور نہ ہی کسی دوسرے کے لیے ایسا ممکن ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی ایک پر بھی وحی نہیں آتی جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی آیا کرتی تھی۔اور آپ کے بعد کسی کو ہر ایک چیز کا علم ایسے حاصل نہیں ہے جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوحاصل تھا۔تو اس کی اطاعت کی کوئی راہ باقی نہ رہی؛ نہ ہی اپنی جہت سے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ۔ اگر اس نص سے مراد یہ لی جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم امت کے لیے بیان فرمادیں کہ یہ انسان تمہارا والی بننے میں دوسروں کی نسبت زیادہ حق دار ہے۔اور اس کی ولایت و امامت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں زیادہ محبوب اور پسندیدہ ہے۔ اور تمہارے لیے تمہاری دنیا اور دین دونوں اعتبار سے زیادہ بہتر اور مصلحت پر مبنی ہے۔ یا اس طرح کا کوئی دیگر کلام ارشاد فرمادیں جس سے ظاہر ہوتا ہو کہ خلافت نبوت میں فلاں شخص دوسروں کی نسبت زیادہ حق دار ہے ۔ تو پھر اس میں کوئی شک نہیں کہ اس طرح کی بہت ساری نصوص حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بارے میں وارد ہوئی ہیں ۔ اگر اس سے مراد یہ لی جاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اس امام کی اتباع کرنے کاحکم دیا تھا جیسے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کو حکم دیا تھا کہ وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اتباع کریں ۔اور اس بارے میں امت سے کوئی عہد بھی لیا تھا۔ جب اس کے بارے میں معلوم ہوجائے کہ امت ایسا ہی کرے گی تو پھر اس عہد کا ترک کرنا ہی بہتر تھا۔ اور اگر آپ کو اندیشہ ہو کہ امت آپ کے حکم کے بغیر ایسا نہیں کرے گی؛ تو پھر حکم دینا زیادہ اولی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو خوف محسوس ہوا کہ آپ کے بعد امت میں اختلاف پیدا ہوجائے گا تو
Flag Counter