Maktaba Wahhabi

676 - 702
اظہارکرتے تھے ؛ اس آیت میں انہیں اس محبت سے روکا گیا ہے۔رافضی جمہور مسلمانوں سے محبت نہیں کرتے ۔امام ضحاک رحمہ اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت کرتے ہیں :آپ فرماتے ہیں : حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے یہودی حلفاء تھے۔ آپ نے عرض کیا: یارسول اللہ ! میرے ساتھ پانچ سو یہودی ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ میں ان سے دشمنی کا اظہار کروں ۔ تو یہ آیت نازل ہوئی۔ ابو صالح روایت کرتے ہیں : عبد اللہ بن ابی اور اس کے منافق ساتھی یہودیوں سے دوستی رکھتے تھے اور ان تک مسلمانوں کی خبریں پہنچاتے تھے۔اور ان کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر فتح حاصل ہونے کی امیدیں لگائے رکھتے تھے۔ تو اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کو ان منافقین جیسا برا کردار ادا کرنے سے منع کردیا۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت کیا گیا ہے : کچھ یہودی انصار کے ساتھ بظاہر محبت کا دعوی کرتے تھے تاکہ انہیں ان کے دین میں فتنہ کا شکار کرسکیں ۔مسلمانوں میں سے کچھ لوگوں نے انہیں ایسا کرنے سے منع کیا ؛کہ ان یہودیوں سے بچ کر رہو؛ مگر وہ باز نہ آئے ۔ تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ مقاتل بن سلیمان اور مقاتل بن حیان سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں : ’’یہ آیت حاطب بن ابی بلتعہ جیسے لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ؛ جو کفار مکہ کیساتھ محبت کااظہار کرتے تھے۔اللہ تعالیٰ نے انہیں ایسا کرنے سے منع کیا ۔ رافضی لوگوں میں سب سے بڑھ کر اہل سنت و الجماعت سے محبت کااظہار کرتے ہیں ؛ ان میں سے کوئی ایک بھی ان کے سامنے اپنے دین کااظہار نہیں کرتا ‘ بلکہ ان لوگوں نے صحابہ کرام کے فضائل اور ان کی مدح کے قصیدے یاد کر رکھے ہوتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی خود رافضی اپنی ہجو میں اشعار یاد کر رکھتے ہیں جن کے ذریعہ سے اہل سنت والجماعت کیساتھ محبت کا اظہار کرنا چاہتے ہیں ۔جیسا کہ مؤمنین اہل کتاب اور مشرکین کے لیے محبت کااظہار کرتے تھے۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ رافضی اس آیت پر عمل کے لحاظ سے کوسوں دور ہیں ۔ رہا یہ فرمانا کہ : ﴿اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْہُمْ تُقٰۃً﴾ [آل عمران۲۸] ’’ مگر یہ کہ تم ان سے بچو، کسی طرح بچنا ۔‘‘[]شیعہ اور سنی تقیہ میں فرق مجاہدکہتے ہیں : اس سے مراد ہے تصنع کرنا ۔یہاں ’’تقٰۃ‘‘سے مراد [تقیہ کرنا] نہیں کہ میں جھوٹ بولوں ‘اور اپنی زبان سے وہ بات کہوں ‘ جو کہ میرے دل میں نہیں ۔بلکہ یہ ہے کہ مجھے وہ کچھ کرنا چاہیے جس پر مجھے قدرت حاصل ہے۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((من رأی منکم منکراً فلیغیّرہ بیدہ؛ فإن لم یستطع فبلسانہ؛ فإن لم یستطع فبقلبہ ؛ وذلک أضعف الإیمان۔)) [مسلم۱۸۶] ’’جوکوئی تم میں سے برائی کی بات دیکھے اسے چاہیے کہ وہ اسے اپنے ہاتھ سے مٹا دے، اگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اسے اپنی زبان سے منع کرے، اور اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو اسے دل میں برا جانے، اور یہ
Flag Counter