Maktaba Wahhabi

604 - 702
بھرنے والے تھے؛ ان میں سے کوئی ایک بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھنے والا نہیں تھا۔ اورنہ ہی کوئی ان لوگوں میں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اختلاف و بغض رکھنے والا تھا جن کے کسی قریبی کو آپ نے کسی غزوہ میں قتل کیا ہو۔ ٭ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے سال مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کے ساتھ دس ہزار کا لشکر تھا۔ ایک ہزار مجاہدین بنو سلیم سے تھے ‘ ایک ہزار بنو مزینہ سے ‘ جہینہ سے ایک ہزار ‘ بنی غفار سے ایک ہزار ۔ اور باقی لشکر بھی اسی طرح سے تھا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ’’ قبیلہ اسلم کو اللہ تعالیٰ نے سالم رکھا؛ اور قبیلہ غفار کی اللہ تعالیٰ نے بخشش فرمادی ۔‘‘[1] اور فرمایاکرتے تھے:’’قریش انصار جہینہ مزینہ اسلم اورغفار کے قبائل میرے دوست ہیں اور ان کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی دوستی حاصل ہے۔‘‘ [ صحیح بخاری:ج :۲ ؛ ح ۷۳۸] ٭ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں میں سے کسی ایک کو بھی قتل نہیں کیا۔ اور نہ ہی انصار میں سے کسی ایک کو قتل کیا ۔اس کے برعکس حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب سے اسلام لائے ؛حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نسبت مشرکین سے بہت سخت دشمنی رکھتے تھے؛ یہی وجہ ہے کہ مشرکین بھی سب صحابہ سے بڑھ کر آپ سے نفرت رکھتے تھے۔لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سختی اور شدت کی وجہ سے آپ سے دور بھاگتے تھے۔ ایسا حال حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نہیں تھا ۔ ان سے لوگ اتنا بغض و نفرت نہیں رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کو خلیفہ متعین کیا تو بعض لوگوں نے اس بات کو ناپسند کیا ۔اور بعض لوگوں نے تو اس کی ناپسندیدگی کی وجہ سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے تکراربھی کیا ۔ اس لیے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اللہ کے معاملہ میں کسی ملامت گر کی ملامت کی پرواہ نہیں کیا کرتے تھے۔ پس یہاں کوئی ایسا سبب نہیں پایا جاتا تھا کہ جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نبوت والی زبان سے خلیفہ و امام مقرر کردیں ؛ اور اس کے متعلق نص موجود ہو‘ اورحضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کو پیچھے کردیں اور جس کا حق بعد میں ہواسے[یا بغیر حق کے کسی کو ]آگے کردیں یا صاحب حق کو حق سے محروم کردیں ۔ ٭ اور اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی خوف کے پیش نظر ان دو کو جیش اسامہ رضی اللہ عنہ میں نکالا بھی ہوتا تو آپ لوگوں کو یہ بھی کہہ دیتے کہ ان دونوں کی بیعت نہیں کرنا۔ہائے افسوس ! کوئی یہ تو بتائے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کس سے خوف لاحق تھا؟ اللہ تعالیٰ نے آپ کی مدد فرمائی‘ آپ کو غلبہ اور سربلندی عطا فرمائی؛ آپ کے ارد گرد مہاجرین و انصار کی ایک
Flag Counter