Maktaba Wahhabi

59 - 702
﴿وَ سَارِعُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ جَنَّۃٍ عَرْضُہَا السَّمٰوٰتُ وَ الْاَرْضُ اُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِیْنَ o الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ فِی السَّرَّآئِ وَ الضَّرَّآئِ وَ الْکٰظِمِیْنَ الْغَیْظَ وَ الْعَافِیْنَ عَنِ النَّاسِ وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ o وَ الَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَہُمْ ذَکَرُوا اللّٰہَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذَنُوْبِہِمْ وَ مَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰہُ وَ لَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا وَ ہُمْ یَعْلَمُوْنَoاُولٰٓئِکَ جَزَآؤُہُمْ مَّغْفِرَۃٌ مِّنْ رَّبِّہِمْ وَ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِہَا الْاَنْھٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْہَا وَ نِعْمَ اَجْرُ الْعٰمِلِیْنَ﴾ [آل عمران ۱۳۳۔۱۳۶]۔ ’’اور اپنے رب کی بخشش کی طرف اور اس جنت کی طرف دوڑوجس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے جو پرہیز گاروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔جو لوگ آسانی میں اور سختی کے موقع پراللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں ۔غصہ پی جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے؛ اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔جب ان سے کوئی ناشائستہ کام ہو جائے یا کوئی گناہ کر بیٹھیں تو فورا اللہ کا ذکرکرتے اور اپنے گناہوں پر معافی مانگتے ہیں فی الواقع اللہ تعالیٰ کے سوا اور کون گناہوں کو بخش سکتا ہے؟ اور وہ لوگ جو علم کے ہوتے ہوئے کسی بھی برے کام پر اڑ نہیں جاتے۔ان کا بدلہ ان کے رب کی طرف سے مغفرت ہے اورایسی جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے ان نیک کاموں کے کرنے والوں کا ثواب کیا ہی اچھا ہے۔‘‘ یہ جو لوگ جنت میں جائیں گے ‘ ان کے لیے کہیں پر بھی حب علی رضی اللہ عنہ کی شرط کا ذکر نہیں کیا گیا ۔ نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿اِِنَّ الْاِِنسَانَ خُلِقَ ہَلُوْعًا oاِِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوْعًاoوَاِِذَا مَسَّہُ الْخَیْرُ مَنُوْعًا oاِِلَّا الْمُصَلِّینَ oالَّذِیْنَ ہُمْ عَلٰی صَلَاتِہِمْ دَائِمُوْنَ ﴾ [المعارج ۱۹۔۲۲] ’’بیشک انسان بڑے کچے دل والا بنایا گیا ہے۔جب اسے مصیبت پہنچتی ہے تو ہڑ بڑا اٹھتا ہے۔اور جب راحت ملتی ہے تو بخل کرنے لگتا ہے۔مگر وہ نمازی۔جو اپنی نمازوں پر ہمیشگی کرنے والے ہیں ۔‘‘ [یہاں سے آگے تک اللہ تعالیٰ نے کئی نیک اعمال ذکر کیے ان کے آخر میں جاکر فرمایا] : ﴿اُوْلٰٓئِکَ فِیْ جَنّٰتٍ مُکْرَمُوْنَ ﴾ [المعارج۳۵] ’’یہی لوگ جنتوں میں عزت والے ہوں گے۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کئی وفود آئے ؛ وہ آپ پر ایمان لائے؛ اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایسے لوگ بھی ایمان لائے جو آپ کو دیکھ نہیں سکے۔ اورنہ ہی انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا نام سنا ؛ نہ ہی آپ کو جانتے تھے ؛ اس کے باوجود وہ مؤمنین اور متقی ہیں ۔ اور جنت کے مستحق ہیں ۔
Flag Counter