Maktaba Wahhabi

582 - 702
عثمان رضی اللہ عنہ کے موید تھے۔ اور اگریہ اکابر صحابہ اس کا انکار کرتے تو کوئی بھی ان کی مخالفت نہ کرتا۔مزید برآں اگر یہ بھی تسلیم کرلیا جائے کہ ان میں سے کسی ایک نے اختلاف بھی کیا تھا تواجتہادی امور میں اختلاف ایک عام بات ہے۔اس کی وجہ سے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر کوئی عیب نہیں لگایا جاسکتا ۔ اگر کہا جائے کہ یہ اذان بدعت ہے۔اور اس سے مراد یہ ہو کہ یہ اذان اس سے پھلے موجود نہیں تھی۔ تو ہم کہیں گے کہ اہل قبلہ سے لڑنا بھی بدعت ہے۔اس لیے کہ حضر ت علی رضی اللہ عنہ سے پہلے کسی حاکم نے اہل قبلہ سے قتال نہیں کیا۔[ خود انصاف کیجیے]اس آذان کو اہل قبلہ کے ساتھ قتال سے کیا نسبت ہے ؟ اگر یہ کہا جائے کہ : یہ اذان اس لحاظ سے بدعت ہے کہ اس پر کوئی شرعی دلیل موجود نہیں ۔ تو ان سے کہا جائے گا کہ : تمہیں یہ کیسے معلوم ہوگیا کہ حضر ت عثمان رضی اللہ عنہ نے تو بغیر شرعی دلیل کے اس آذان کا اضافہ کیا؛ اور حضر ت علی رضی اللہ عنہ کے پاس اہل قبلہ کو قتل کرنے کے لیے شرعی دلیل موجود تھی؟ مزید برآں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں جامع مسجد میں دوسری نماز عید کی بدعت کااضافہ کیا۔ جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے دور میں ایک شہر میں ایک ہی جمعہ ہوا کرتا تھا۔ اور عید الفطر اور عید الاضحی کے موقع پر صرف ایک ہی بار عید کی نمازپڑھی جاتی تھی۔ جمعہ کی نماز لوگ مسجد میں پڑھا کرتے تھے اور عید کھلے میدان میں پڑھا کرتے تھے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عرفہ کے دن اورجمعہ کے دن نماز سے پہلے خطبہ دیا کرتے تھے۔ اور عید کے دن نماز کے بعد خطبہ دیا کرتے تھے۔جب کہ استسقاء کی نماز کے بارے میں اختلاف ہے۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کا عہد آیا تو آپ سے کہا گیا: ’’ شہر میں ایسے کمزور اور معذور لوگ ہیں جو عید گاہ کی طرف نکلنے کی طاقت نہیں رکھتے۔تو حضر ت علی رضی اللہ عنہ نے ایک نائب مقرر فرمایا جو مسجد میں ان لوگوں کو عید پڑھایا کرتا۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے تکبیرات کے ساتھ دو رکعت پڑھائیں ۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ چار رکعت بغیر تکبیرات کے پڑھائیں ۔ ایسے ہی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمانے حضر ت علی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں بصرہ میں عرفہ کے دن خطبہ دیا۔ مگرحضر ت علی رضی اللہ عنہ نے اس پر کوئی انکار نہیں کیا۔ حضر ت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد میں جس اذان کا اضافہ کیا تھا؛ بعد میں لوگوں کا اس پر اتفاق ہوگیا۔ جیسے کہ اہل مذاہب اربعہ اور دوسرے لوگوں کے ہاں موجود ہے۔جیسا کہ لوگوں کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس سنت پر اتفاق ہوگیا تھا کہ رمضان میں تراویح کے لیے لوگوں کو ایک ہی امام پر جمع کردیا۔ جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جو دو عیدیں پڑھنا شروع کی تھیں اس میں علماء کرام رحمہم اللہ کا اختلاف ہے ۔ رہایہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جو دو عیدیں پڑھانے کی سنت قائم کی تھی؛ اس کے بارے میں اور جمعہ کے بارے علمائے کرام کا تین اقوال میں اختلاف ہے:
Flag Counter