Maktaba Wahhabi

576 - 702
کہ ڈاکؤوں یا مال و اسباب چھیننے والوں کو حتمی طور پر قتل ہی کیا جاسکتا ہے؛یا باقی عام قتل کی طرح یہ بھی ایک قتل ہی ہے کہ کوئی کسی کو اپنی کسی خاص غرض کی وجہ سے قتل کرتا ہے تو اس صورت میں قاتل کو قصاص میں قتل کیا جاتا ہے۔ اس مسئلہ میں ہم نے دو قول ذکر کیے ہیں ۔امام احمد رحمہ اللہ کے مذہب میں بھی یہی دو قول ہیں انہیں قاضی ابو یعلی رحمہ اللہ اور دوسرے لوگوں نے ذکر کیا ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ : اسے حد میں قتل کیا جائے گا۔ان کا کہنا ہے کہ : حکمران کو قتل کرنے کے جرم سے اتنا فتنہ و فساد پھیلتا ہے کہ اتنا فساد ڈاکہ زنی یا راہزنی کی وجہ سے نہیں پھیلتا۔تو حاکم کو قتل کرنے والا ایسے ہی ہے جیسے اللہ اور اس کے رسول سے اعلان جنگ کرنے والا اور زمین میں فساد پھیلانے والا ۔ اس کی دلیل صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تمہارے پاس کوئی آئے اور تمہارا نظام ایک آدمی کے ہاتھ میں ہو‘ اوروہ تمہاری جماعت میں تفریق پیداکرنا چاہتا ہو تو اسے قتل کردو؛ خواہ وہ کوئی بھی ہو ۔‘‘[1] پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت میں تفریق پیدا کرنے کا ارادہ کرنے والے کو بھی قتل کرنے کا حکم دیا ہے۔تو پھر اس کا کیا حکم ہوگا جو مسلمان حکمران کو قتل کرے اور مسلمانوں کی جماعت میں تفریق پیدا کرے۔ جن لوگوں کا یہ قول ہے ؛ وہ کہتے ہیں کہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قاتل کو قتل کرنا حتمی طور پر واجب ہوگیا تھا۔اور ایسے ہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلوں کو قتل کرنا بھی واجب ہوگیا تھا؛ اور ایسے ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے والے کو قتل کرنا حتمی طور پر واجب ہوگیا تھا۔ یہی جواب حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہماکی طرف سے ان لوگوں کو دیا جاتا ہے جو آپ پر اعتراض کرتے ہیں ۔ ہم کہتے ہیں : انہوں نے [یعنی حضرت حسن نے ]قاتل علی رضی اللہ عنہ کو کیسے قتل کردیا جب کہ آپ کے وارثوں میں چھوٹے بھی تھے ؛ بڑے بھی ؛ اور چھوٹے بچے ابھی تک بلوغت کی حد کو نہیں پہنچے تھے؟[یعنی ممکن ہے ان میں سے کوئی ایک دیت یا معاف کرنا چاہتا ہو]۔ توحضرت حسن رضی اللہ عنہ کی طرف سے اس کے دو جواب دیئے جاتے ہیں : ۱۔ اس قاتل کو قتل کرنا حتمی طور پر واجب ہوگیا تھا۔ ۲۔ اس لیے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور آپ کے امثال کا قتل زمین میں سب سے بڑا فساد اور اللہ اور اس کے رسول سے جنگ ہے ۔ [زمین میں فساد پھیلانے والے کی حتمی سزا قتل ہے ؛ لہٰذا آپ کا اقدام درست ہے ]۔ ان میں سے بعض یہ جواب بھی دیتے ہیں کہ قصاص لینے کا اختیار صرف بڑی عمر کے افراد کو ہوتا ہے۔ جیسا کہ امام ابو حنیفہ اور امام مالک رحمہما اللہ کا مذہب ہے ‘ اور امام احمد رحمہ اللہ سے بھی ایک روایت میں منقول ہے ۔
Flag Counter