Maktaba Wahhabi

573 - 702
لے کر آزاد کرنا دونوں امر جائز ہیں ؛ جیسے اسلام سے پہلے تھا؟حالانکہ اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ قیدی اسلام لانے کی وجہ سے معصوم الدم ہوگیا ہے ۔ اس مسئلہ میں دو قول مشہور ہیں ۔اور امام احمد رحمہ اللہ کے مذہب میں بھی دو قول ہیں ۔ اس کو غلام بنانے اور آزاد کرنے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جہد وسعی کو کوئی دخل نہیں ہے۔ جب حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو قتل کیاگیا تو آپ کو قتل کرنے والا شخص حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کا مجوسی غلام ابو لؤلؤ فیروز تھا۔ ابو لؤلؤ اور ہرمزان کے مابین مجانست پائی جاتی تھی۔ اور عبید اللہ بن عمر رحمہ اللہ کو بتایا گیا کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو قتل کیا گیا ؛ اس وقت ابو لؤلؤ کو ہرمزان کے ساتھ دیکھا گیا تھا۔ ہرمزان اس بات سے متہم تھا کہ اس نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قاتل کی امداد کی ہے۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو قتل کیا گیا تو آپ نے ان سے کہاتھا: ’’ تم باپ بیٹا دونوں یہ چاہتے تھے کہ مدینہ میں عجمی کافروں کی بھرمار ہو جائے گی۔‘‘ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما نے دریافت کیا:’’ ہم ان کو قتل نہ کر دیں ۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :’’ تم جھوٹ بولتے ہو؛ جب یہ تمہاری بولی بولنے لگے اور تمہارے قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر نماز پڑھنے لگے ہیں تو تم ان کو کیوں کر قتل کر سکتے ہو؟ غور کیجیے حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما عبیداللہ بن عمر کی نسبت کئی گنا زیادہ بڑی فقاہت اور دینداری اور افضلیت کے باوجود حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مدینہ میں پائے جانے والے عجمی کفار کو قتل کرنے کی اجازت طلب کرتے ہیں ۔ اس لیے ان کا اعتقاد تھا کہ جب وہ فساد بپا کرتے ہیں تو پھر ان کا قتل کرنا جائز ہے ۔ پھر عبید اﷲ ہرمزان کے قتل کو کیوں کر جائز نہ سمجھتے ہوں گے؟ جب عبید اﷲ نے ہرمزان کو قتل کردیا اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو آپ نے عبید اﷲ کو ہرمزان کے قصاص میں قتل کرنے کے بارے میں صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ لیا۔ متعدد صحابہ نے اس کو قتل نہ کرنے کا مشورہ دیا اور کہا ابھی کل اس کے والد حضرت عمر رضی اللہ عنہ شہید ہوئے اورآج اسے قتل کردیا جائے تو اس سے بڑا فساد رونما ہو گا۔ گویا ان کے نزدیک ہرمزان کا معصوم الدم ہونا مشتبہ تھا۔سوال یہ ہے کہ کیا ہرمزان کا شمار ان حملہ آور فسادیوں میں تھا جن سے دفاع کرنے کااستحقاق حاصل ہے ۔ یا پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قتل میں شریک لوگوں میں سے تھا جن کا قتل جائز تھا؟ علماء و فقہاء کا قتل میں شریک لوگوں کے بارے میں ؛ جب بعض قتل کریں اور بعض اس کے پیچھے کارفرما ہوں ؛ تواس میں اختلاف ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ قصاص صرف براہ راست قتل کرنے والے سے لیا جائے گا۔ یہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا قول ہے۔ دوسرا قول یہ ہے کہ : جب سبب قوی ہو تو مباشر [براہ راست قتل کرنے والا ] اور متسبب [ اس کا سبب بننے والا]
Flag Counter