Maktaba Wahhabi

566 - 702
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فوت ہوئے تو آپ سے راضی تھے؛[یہ باتیں ] سب کو معلوم ہیں ۔ ان کے علاوہ دیگر بھی کچھ امور ایسے ہیں جن کی بنا پر ہم قطعی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ آپ بہت بڑے متقین اولیاء اللہ میں سے تھے۔آپ ان لوگوں میں سے تھے جو اللہ تعالیٰ سے راضی ہوگئے تھے اور اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوگیا تھا۔ ان امور کو کسی ایسی روایت کی وجہ سے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا جس کی سند ہی ثابت نہ ہو۔اور نہ ہی یہ پتہ ہو کہ یہ واقعہ کیسے پیش آیا۔اور پھر ایسے امور کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا گناہ قرار دیا جائے جن کی حقیقت کا کوئی پتہ ہی نہ ہو۔ بلکہ اس کی مثال توان لوگوں کی طرح ہے جو اللہ تعالیٰ کی کتاب سے محکم آیات کے مقابلہ میں متشابہ آیات پیش کرتے ہیں ۔حقیقت میں یہ ان لوگوں کا فعل ہے جن کے دلوں میں کجی ہے اور جو فتنہ تلاش کرنے میں لگے رہتے ہیں ؛[اس کے علاوہ ان کا کوئی کام نہیں ہوتا]۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ کج رو روافض ان شرار الخلق لوگوں میں سے ہیں جو ہمیشہ فتنہ مچانے کی سوچتے رہتے ہیں اور ان کی مذمت اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ہے۔ خلاصہ کلام ! ہم یہ بات قطعی طور پر جانتے ہیں کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بھی انسان کو ہمیشہ کے لیے جلاوطن نہیں کیا تھا ؛ کہ پھر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتے ہوئے اسے واپس بلالیتے ؛ اور مسلمانوں میں سے کوئی بھی اس پر اعتراض نہ کرتا اور سب خاموش رہتے ۔حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ سے بہت زیادہ ڈرنے والے تھے۔ آپ اس بات سے بری ہیں کہ کوئی بھی ایسا کام کریں ۔بلکہ یہ کام اجتہادی امور میں سے ہے ۔[حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حکم بن العاص کو نافرمانی اور اسلام کی تذلیل کے لیے مدینہ نہیں بلایا تھا، بلکہ اس لیے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے خیال میں حکم کی حالت سدھر گئی تھی ۔ یہ معلوم نہیں کہ آپ کا یہ اجتہاد صحیح تھا یا غلط] [1]
Flag Counter