Maktaba Wahhabi

562 - 702
’’ کیا تمہیں کبھی کوئی غم نہیں پہنچتا؟ کیا تمہیں تھکاوٹ نہیں ہوتی؟ کیا تمہیں کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوتی ؟ یہی وہ چیزیں جو بدلہ میں تمہیں دی جاتی ہیں ۔ [1] حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ حدود مجرم کے لیے گناہوں کا کفارہ ہوتی ہیں ۔‘‘[2] صحیحین میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ تم لوگ مجھ سے اس بات پر بیعت کرو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنا اور چوری نہ کرنا اور زنا نہ کرنا اور اپنی اولاد کو قتل نہ کرنا اور نہ ایسا بہتان(کسی پر)باندھنا جس کو تم(دیدہ و دانستہ)بنالاؤ۔ اور کسی اچھی بات میں اللہ اور رسول کی نافرمانی نہ کرنا پس جو کوئی تم میں سے(اس عہد کو)پورا کرے گا، تو اس کا ثواب اللہ کے ذمہ ہے۔ اور جو کوئی ان(بری باتوں )میں سے کسی میں مبتلا ہوجائے گا اور دنیا میں اس کی سزا اسے مل جائے گی تو یہ سزا اس کا کفارہ ہوجائے گی اور جو ان(بری) باتوں میں سے کسی میں مبتلا ہوجائے گا اور اللہ اس کو دنیا میں پوشیدہ رکھے گا تو وہ اللہ کے حوالے ہے، اگر چاہے تو اس سے درگذر کردے اور چاہے تو اسے عذاب دے ۔‘‘[3] جب آسمانی مصائب و آفات جو کہ انسان کے فعل کے بغیر حاصل ہوتے ہیں ‘ اللہ تعالیٰ ان کی وجہ سے انسان کے گناہوں کو مٹا دیتے ہیں ۔پس پھر جو انسانوں کی طرف سے ظلم کیا جاتا ہے ؛ یا خلق کی طرف سے تکلیف پہنچتی ہے تو یہ بطریق اولی انسان کے گناہوں کا کفارہ بنتی ہے۔ جیسے کفار کی طرف سے مجاہدین کوپہنچنے والی تکلیف۔ اور جیسے انبیاء کرام علیہم السلام کو ان کے جھٹلانے والوں کی طرف تکلیف پہنچتی ہے۔ اور جیسے مظلوم کو ظالم کی طرف سے تکلیف پہنچتی ہے ۔ جب یہ امور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی وجہ سے پیش آتے ہیں [اور اللہ تعالیٰ انہیں گناہوں کا کفارہ بنادیتا ہے] تو اسی طرح حاکم کی طرف سے لگائی جانے والی حد یا تعزیر کی سزا بالاولی گناہوں کا کفارہ بنتی ہے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں یہ حال تھاکہ اگر کوئی انسان شراب پی لیتا تووہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا ؛اور کہتا :
Flag Counter