Maktaba Wahhabi

553 - 702
کی گئی ہے۔ اس کے جزئیات کی تفصیل بیان کرنے کا یہ موقع نہیں ۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جیسے لوگ آپ کے ذو القربی تھے ؛[یعنی مال غنیمت میں ان کا حصہ متعین تھا] آپ کے بعد ویسے ہی لوگ آپ کے خلفاء اور جانشینوں کے ذوالقربی ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ : حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے اتنے زیادہ رشتہ دار نہیں تھے جتنے زیادہ رشتہ دار حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے تھے۔ اس لیے کہ بنو عبد شمس قریشی قبائل میں سے سب سے بڑا قبیلہ تھا؛ ان کے برابر کا قبیلہ صرف بنو مخزوم تھے۔اور انسان کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے مال میں سے اپنے خونی رشتہ داروں پر خرچ کرے۔ جب ان کا اعتقاد یہ تھا کہ ولی امر کے پاس وہ مال آتا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ذو القربی کا حصہ مقرر کیا ہے ؛ تووہ مستحق ٹھہرتے ہیں کہ وہ مال انہیں دیا جائے جسے اللہ تعالیٰ نے ان کا حصہ کہا ہے ۔کیونکہ وہ خلیفہ یا امام کے قریبی رشتہ داروں میں سے ہیں ۔اور ولی امر کی مدد اور اس کا دفاع کرنا ان پر فرض ہے۔ اور جس طرح اس کے اقارب اس کی مدد یا دفاع کرسکتے ہیں ‘ ایسے کوئی دوسرا انسان نہیں کرسکتا ۔ خلاصہ کلام! ہر حاکم کے لیے ایسے لوگوں کا ہونا ضروری ہے جو اپنی جانوں پر کھیل کر اس کی مدد کریں ۔اور جو لوگ اسے ضرر پہنچانا چاہتے ہوں ‘ ان سے اس کا دفاع کریں ۔ جیسا کہ لوگ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہماکے ساتھ تھے۔ اور پھر ان لوگوں کی بھی کفائت [اور کفالت ]کا کچھ بندوبست ہونا چاہیے ۔یہ ایک تأویل ہے۔ دوسری تاویل :....آپ ان اموال میں تصرف کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ[زکوٰۃ و صدقات کے مصارف بیان کرتے ہوئے] فرماتے ہیں :﴿وَالْعٰمِلِیْنَ عَلَیْہَا ﴾ [التوبہ۶۰] ’’اور اس میں کام کرنے والوں کا بھی حصہ ہے ۔‘‘ صدقات اور زکوٰۃوصول کرنے والا عامل اپنی تونگری کے باوجود اس مال میں سے اپنی اجرت لینے کا مجاز ہے۔اس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ یتیم کے مال کی دیکھ بھال کرنے والے کے بارے میں اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَ مَنْ کَانَ غَنِیًّا فَلْیَسْتَعْفِفْ وَ مَنْ کَانَ فَقِیْرًا فَلْیَاکُلْ بِالْمَعْرُوْفِ ﴾ (النساء:۶) ’’جو دولت مند ہو وہ پرہیز کرے اور جو تنگ دست ہو وہ حسب دستور اس میں سے کھا لیا کرے۔‘‘ اور کیا اس آیت مذکورہ میں استعفاف [ پرہیز] کا حکم واجب حکم ہے یا مستحب ؟ اس میں دو قول ہیں ۔ اس میں اختلاف ہے کہ کیا بیت المال کا والی؛اور ناظر ِوقف بھی صدقہ وصول کرنے والے کی طرح ہیں یا پھر اور یتیم کے مال کی دیکھ بھال کرنے والے کی طرح ہیں ؟ اس میں دو قول ہیں ۔ اگر امام یا خلیفہ کو صدقات وصول کرنے والے عامل کی طرح سمجھا جائے تووہ غنی ہونے کے باوجود اس مال میں سے لینے کا مستحق ٹھہرتا ہے۔اور اگر اسے یتیم کے ولی کی طرح سمجھا جائے تو پھر اس میں دو قول ہیں ۔سب ملا کر کل یہ تین قول ہوئے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے حق میں ان میں سے دو قول تھے۔ آپ کے لیے مالدار ہونے کے باوجود اس مال میں سے لینا جائز تھا۔ یہ فقہاء کا مذہب ہے ؛ اس میں بادشاہوں کی
Flag Counter