Maktaba Wahhabi

546 - 702
اس کام کے لیے زیادہ مناسب ہیں ‘ پھر بھی انہی کو تعینات کیا۔تو یہ مسئلہ اصل میں اجتہاد کے باب سے تعلق رکھتا ہے۔ اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ:’’ آپ کے اقارب کی محبت نے آپ کوان کی طرف مائل کردیا تھا؛ یہاں تک کہ آپ ان لوگوں کو دوسرے لوگوں کی نسبت سے زیادہ حق دار سمجھنے لگے۔یا پھر یہ کہا جاسکتا ہے کہ جو کچھ آپ نے کیا ؛ وہ گناہ کا کام تھا۔‘‘ اس سے پہلے یہ بیان گزر چکا ہے کہ آپ کے گناہوں پر آخرت میں مؤاخذہ نہیں کیا جائے گا۔ [اعتراض]: شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’آپ کے بعض عمال سے فسق و فجور کے کام سرزد ہوئے اور بعض نے خیانت کی ۔‘‘ [جواب]: اس سے کہا جائے گاکہ : ولایت مل جانے کے بعد کسی چیز کا ظاہر ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہوسکتا کہ یہ مرض اس سے پہلے بھی موجود تھا۔ اور نہ ہی یہ لازم آتا ہے کہ آپ نے یہ علم ہونے کے بعد انہیں ولایت پر تعینات کیا تھا۔ جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو علم ہوا کہ ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ نے شراب پی ہے ‘تو آپ نے اسے بلاکر اس پر حد قائم کی۔ اور آپ ان لوگوں کومعزول بھی کیا کرتے تھے جنہیں معزول کرنے کا مستحق سمجھا کرتے تھے۔ اور جسے حد کا مستحق سمجھتے تھے اس پر حد بھی قائم کیا کرتے تھے۔ [اعتراض]: شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے اقارب میں مال تقسیم کیا تھا۔‘‘ [جواب]:ہم کہتے ہیں کہ حدسے زیادہ یہ گناہ ہوسکتا ہے ؛ پھر یہ ایسا گناہ نہیں جس پر آخرت میں سزا دی جائے۔ اسے ایک اجتہادی غلطی بھی قرار دے سکتے ہیں ۔کیونکہ یہ ایک اجتہادی مسئلہ ہے ۔ یہ مسئلہ علماء کے یہاں مختلف فیہا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں جن اختیارات سے بہرہ ور تھے۔ آپ کے بعد امام و خلیفہ کو وہ اختیارات حاصل ہوں گے یا نہیں ؟ اس میں علماء کے دو قول ہیں ۔اور ایسے ہی اس مسئلہ میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے کہ جب یتیم کا ولی دولت مند ہو تو کیا وہ یتیم کے مال میں سے اپنی اجرت وصول کر سکتا ہے یا نہیں ؟ نیز یہ کہ آیا اجرت کاترک کرنا واجب ہے یا افضل ؟ جو علماء تونگری کے باوجود یتیم کے مال میں سے اجرت لینے کو جائز تصور کرتے ہیں ، ان کے نزدیک امام و خلیفہ بھی بیت المال میں سے اپنی اجرت وصول کرسکتا ہے۔ اسی طرح قاضی و حاکم کو بھی یہ حق حاصل ہے۔ جو علماء یتیم کے مال میں سے اجرت وصول کرنے کو ناروا تصور کرتے ہیں ، ان میں سے بعض بیت المال میں سے اپنی اجرت لینے کو جائز قرار دیتے ہیں ، جس طرح زکوٰۃوصول کرنے والا تونگری کے باوجود اس میں سے اپنی اجرت لینے کا مجاز ہے۔ یتیم کے ولی کے بارے میں اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿وَ مَنْ کَانَ غَنِیًّا فَلْیَسْتَعْفِفْ وَ مَنْ کَانَ فَقِیْرًا فَلْیَاکُلْ بِالْمَعْرُوْفِ ﴾ (النساء:۶) ’’جو دولت مند ہو وہ پرہیز کرے اور جو تنگ دست ہو وہ حسب دستور اس میں سے کھا لیا کرے۔‘‘
Flag Counter