Maktaba Wahhabi

539 - 702
اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر کئی خاص مصائب بھی آئے اور کئی مصائب ان کے مابین مشترک تھے۔مثلاً وہ مصائب جو فتنے کے دور میں پیش آئے۔ اور اگر صرف اتنا ہی ہو کہ ان میں سے بہت سارے لوگ شہید کردیے گئے اور بہت سارے لوگوں کو اپنے اہل و عیال اور اقارب میں مصائب کا سامنا کرنا پڑا؛ اور مالی آزمائشیں بھی آئیں ۔ کچھ دوسروں کو زخموں سے دو چار ہونا پڑا۔ اورکسی کی عزت و ولایت[یعنی اقتدار اور حکومت] ختم ہوگئی۔ان کے علاوہ بھی کئی امور پیش آئے۔ یہ تمام امور ایسے ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے علاوہ دوسرے اہل ایمان کے بھی گناہ معاف کرتے ہیں تو پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق کیا خیال ہے ؟ اور ایسا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ یہ بات صحیح مسلم میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میں نے اپنے رب سے تین چیزیں مانگیں پس دو چیزیں مجھ کو عطا کردیں گئیں اور ایک چیز سے مجھے روک دیا۔میں نے اپنے رب سے مانگا کہ میری امت کو قحط سالی کے ذریعہ ہلاک نہ کرے پس یہ مجھے عطا کردیا گیا۔اور میں نے اللہ سے مانگا کہ میری امت کو غرق کر کے ہلاک نہ کر پس اللہ عزوجل نے یہ چیز بھی مجھے عطا کر دی ۔اور میں نے اللہ عزوجل سے سوال کیا کہ ان کی آپس میں ایک دوسرے سے لڑائی نہ ہو تو مجھے اس سوال سے منع کردیا گیا۔‘‘[1] اور صحیح بخاری میں ہے جب یہ آیت نازل ہوئی: ﴿قُلْ ہُوَ الْقَادِرُ عَلٰٓی اَنْ یَّبْعَثَ عَلَیْکُمْ عَذَابًا مِّنْ فَوْقِکُمْ﴾۔[الانعام۶۵] ’’فرما دیجیے: وہ اس پر قادر ہے کہ تم پر عذاب اوپر سے بھیجے ۔‘‘ ’’ تو آپ نے فرمایا کہ: میں تیری ذات کی پناہ مانگتا ہوں ۔‘‘ پھرفرمایا:﴿اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِکُمْ﴾ ’’یا تمہارے پاؤں کے نیچے سے۔‘‘ تو آپ نے فرمایا کہ:’’ میں تیری ذات کی پناہ مانگتا ہوں ۔‘‘ پھر فرمایا:﴿ اَوْ یَلْبِسَکُمْ شِیَعًا وَّ یُذِیْقَ بَعْضَکُم﴾ ’’ یا تمہیں فرقے فرقے بنا دے، اور ایک دوسرے کا عذاب چکھائے۔‘‘ تو آپ نے فرمایا کہ یہ دونوں باتیں آسان ہیں ۔‘‘[2] یہ امر لازمی ہونا ہے ؛ اور یہ ساری امت کے لیے ہے۔ مگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بعد میں آنے والوں کی نسبت سے
Flag Counter