Maktaba Wahhabi

516 - 702
نہیں بنایا۔ بنی ہاشم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعدحضرت حمزہ؛ جعفر بن ابو طالب اور عبید بن حارث بن مطلب رضی اللہ عنہم سے بڑھ کر کوئی بھی افضل نہیں تھا۔عبید بن حارث بدر کے دن شہید ہوئے تھے ۔ ایسے ہی حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو بھی کوئی ولایت عطا نہیں کی ؛ اس لیے کہ آپ غزوہ احد میں شہید کردیئے گئے تھے۔ بعض ترک اوران کے مشائخ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے متعلق جوکچھ روایت کرتے ہیں ؛ اورجوکچھ ان کے بارے میں ترکوں کے ہاں متداول ہے ؛ جس میں آپ کی کئی جنگوں اور محاصروں کا ذکر ہے ؛ یہ تمام جھوٹ اور من گھڑت ہے۔یہ بالکل اسی جنس سے ہے جیسے جھوٹے لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق من گھڑت جنگی کہانیاں مشہور کررکھی ہیں ۔یہی نہیں بلکہ ایسے جھوٹ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی گھڑے گئے ہیں ۔یہ تمام واقعات ابو الحسن البکری کی سیرت کی کتاب ’’ أنوار التنقلات ‘‘ میں بیان کیے گئے جھوٹ کی جنس سے ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات اہل علم کے ہاں معروف ہیں ۔اوروہ ان واقعات کو ضبط ِ تحریر میں لاچکے ہیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات کی تعداد بیس سے زیادہ [ستائیس] ہے۔لیکن ان میں سے صرف نو غزوات میں قتال کی نوبت آئی: غزوہ بدر؛ غزوہ احد؛ خندق ؛ بنی مصطلق؛ الغابہ ؛ فتح خیبر؛ فتح مکہ ؛ حنین اور طائف۔ طائف وہ آخری غزوہ ہے جس میں قتال تک نوبت پہنچی۔ اس کے بعد غزوہ تبوک کا واقعہ پیش آیا ۔یہ غزوہ تعداد کے لحاظ سے بہت زیادہ ؛ اور تیاری کے لحاظ سے بڑا پر مشقت تھا۔اسی غزوہ میں اللہ تعالیٰ نے سورت برأت [توبہ] نازل فرمائی۔اس غزوہ میں بھی قتال تک نوبت نہیں پہنچی۔ جاہل حجاج تبوک کے محاصرہ کا جو ذکر کرتے ہیں ‘ اس کی کوئی اصل نہیں ۔تبوک میں نہ ہی کوئی قلعہ تھا اورنہ ہی قتال ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس روز تک وہاں قیام کیا اورپھر واپس مدینہ تشریف لائے۔ حضرت جعفر رضی اللہ عنہ اپنی زندگی میں بنی ہاشم میں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد افضل انسان تھے۔مگر اس کے باوجود آپ نے قبیلہ کلب کے ایک آدمی زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو آپ پر امیر بنایا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ تقدیم فضیلت ِایمان؛ تقوی اور بعض دوسرے امور مصلح کی وجہ سے ہوتی ہے نسب کی وجہ سے نہیں ۔یہی وجہ تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اقارب پر حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کو مقدم رکھا کرتے تھے۔بلاشک وشبہ آپ اللہ کے رسول تھے اور اللہ کے حکم کے مطابق ہی حکم دیاکرتے تھے۔آپ ان بادشاہوں میں سے نہیں تھے جو اپنی خواہشات کی وجہ سے اپنے عزیز و اقارب اور دوست و احباب کو مقدم کرتے ہوں ۔ یہی حال حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہماکا بھی تھا۔ یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’ جو حاکم اپنی قرابت یا دوستی کی وجہ سے کسی کوتعینات کرے ؛ حالانکہ مسلمانوں میں اس سے بہتر لوگ موجود ہوں ؛ تو یقیناً اس نے اللہ اور اس کے رسول سے اور مؤمنین سے خیانت کی۔‘‘
Flag Counter