Maktaba Wahhabi

496 - 702
[اعتراض ]:شیعہ مصنف لکھتا ہے: ’’ عمر رضی اللہ عنہ جانتے تھے کہ عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اپنے بھائی اورچچا زاد ( حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ) کے سوا کسی اور کو خلیفہ مقرر نہیں کر سکتے۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی] [جواب]:یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر صاف جھوٹ اور شیعہ کی علم الانساب سے جہالت کا بین ثبوت ہے۔ اس لیے کہ عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے برادر اور ابن العم ہرگز نہ تھے۔بلکہ وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ہم قبیلہ بھی نہ تھے۔ بخلاف ازیں وہ بنوزہرہ کے قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔ چونکہ بنو زہرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ننھال تھے، اس لیے اس کا میلان بنی ہاشم کی جانب تھا۔ البتہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ قبیلہ بنو زہرہ میں سے تھے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا تھا :’’ یہ میرے ماموں ہیں ؛ او رانسان کو چاہیے کہ اپنے ماموں کا خیال کرے۔‘‘ [1] [یہ کہا جا سکتا ہے کہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے قبیلہ بنو زہرہ سے تعلق رکھتے تھے پھر ان کو خلیفہ کیوں نہ مقرر کردیا؟] مزید برآں حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اورحضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مابین مواخات بھی نہیں تھی اور نہ ہی ان اتنے زیادہ گہرے تعلقات تھے۔اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین اور مہاجرین کے مابین مواخات قائم نہیں کی تھی۔ بلکہ مؤاخات کا رشتہ مہاجرین اور انصار کے مابین قائم ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ اور سعد بن ربیع الانصاری رضی اللہ عنہ کے مابین مواخات قائم کی تھی۔یہ حدیث بڑی مشہور اور ثابت ہے اور صحاح میں موجود ہے ۔ حدیث کا علم رکھنے والے اسے اچھی طرح جانتے ہیں ۔عثمان رضی اللہ عنہ اور عبدالرحمن رضی اللہ عنہ کے مابین کوئی مواخات نہیں تھی۔ [اعتراض ]:شیعہ مصنف لکھتا ہے: ’’ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حکم دیا تھا کہ اگر تین دن تک بیعت نہ کریں تو ان سب کو قتل کر دیا جائے۔‘‘ [جواب]:پہلی بات: ہم دریافت کرتے ہیں کہ یہ کس دلیل سے ثابت ہے ؟ اور کس نے کہا کہ یہ روایت صحیح ہے ؟ مشہور بات یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انصار کو حکم دیا تھا کہ ان سے جدا نہ ہوں اور جانے سے پہلے چھ اشخاص میں سے ایک کی بیعت کرلیں ۔ دوسری بات:....یہ روایت حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر جھوٹ گھڑا گیاہے۔ اہل علم میں سے کسی ایک نے بھی کسی بھی معروف سند سے اس واقعہ کو نقل نہیں کیا۔ اور نہ ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کوئی ایسا حکم دیا۔ یہ چھ اشخاص حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک منتخب روز گار تھے۔ پھر آپ ان کے قتل کا حکم کیوں کر صادر کر سکتے تھے؟ اگر انہیں قتل کردیا جاتا تو بہت بڑا فتنہ و فساد پیدا ہوجاتا ۔ نیز یہ کہ انصار ان کو قتل کرنے کے بارے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اطاعت کیسے کر سکتے تھے ؟[کیونکہ یہ لوگ ۱۔بے گناہ تھے۔ ۲۔اپنی اپنی قوم کے بڑے تھے قوم انہیں کیسے قتل کرسکتی تھی؟]۔ اگر آپ قتل کا حکم صادر کرتے تو یہ بھی بتاتے کہ ان کے بعد کس شخص کو اس منصب پر فائز کیا جائے۔آپ کیسے ان
Flag Counter