Maktaba Wahhabi

462 - 702
جائے ۔ پھر جن لوگوں کو شوری کے لیے منتخب کیا تھا ان میں سے ہر ایک پر طعن بھی کیا۔اور یہ ظاہر کیا کہ وہ اس چیز کو نا پسند کرتے ہیں کہ مسلمانوں کی زمام کار مرتے ہوئے کسی کے سپرد کردیں جس طرح اپنی زندگی میں اس کو ناپسند کرتے تھے ۔ پھر مرتے ہوئے یہ معاملہ چھ لوگوں کے سپرد کر گئے۔ پھر ان میں کمی کرکے انہیں چار کردیا۔پھر تین کردیا ۔ پھر ایک تک بات پہنچ گئی ۔اور عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کو یہ اختیار دے دیا۔حالانکہ آپ کو کمزوری اورکوتاہی سے موصوف کیا تھا۔پھرکہا : اگر امیر المؤمنین اورعثمان رضی اللہ عنہماایک رائے پر جمع ہوجائے تو وہی بات مانی جائے گی جو یہ دونوں حضرات کہہ رہے ہوں ۔ اور اگر تین ہوجائیں تو پھر ان کی بات معتبر ہوگی جن میں عبد الرحمن رضی اللہ عنہ موجود ہوں ۔اس لیے کہ آپ جانتے تھے کہ علی اور عثمان رضی اللہ عنہماکبھی بھی ایک بات پر اکھٹے نہیں ہوسکتے۔ اور یہ کہ عبدالرحمن کبھی بھی اپنے بھائی سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ آپ کے چچا زاد بھائی تھے۔ پھر حکم دیا کہ اگر بیعت کرنے میں تین دن سے زیادہ کی تاخیر کریں تو ان کی گردنیں اڑا دی دی جائیں ۔حالانکہ ان کے نزدیک یہ لوگ عشرہ مبشرہ رضی اللہ عنہم میں سے شمار ہوتے تھے ۔ اور حکم دیا کہ جو ان چار کی مخالفت کرے اسے قتل کردیا جائے۔ اور جن تین لوگوں کے گروہ میں حضرت عبد الرحمن رضی اللہ عنہ موجود ہوں ان کے مخالفین کو قتل کرنے کا حکم دیا۔یہ تمام باتیں دین کے خلاف ہیں۔ [حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے ]حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’ اگر میں تمہیں امام بنادوں ۔ حالانکہ وہ ایسا کرنے والے نہیں تھے ۔ توتم سنت کی راہ پر قائم رہوگے؟اس میں اشارہ تھا کہ آپ کو خلیفہ نہیں بنایا جائے گا۔اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا : اگر میں تمہیں خلیفہ بناؤں تو آپ آل ابی معیط کی راہ پر قائم رہوگے؟اور اگر تم ایسا کر وگے تو تم ضرور اسے قتل کرو گے ۔اس میں امیر المؤمنین کے قتل کی طرف اشارہ تھا۔‘‘[شیعہ مصنف کا کلام ختم ہوا] [جواب]:اس کا جواب یہ ہے کہ یہ گفتگو دو قسم سے خالی نہیں : ۱۔ جو نقل کے اعتبار صریح کذب ہے۔ ۲۔ جس میں دانستہ حق کو ٹھکرایا گیا ہے۔ ٭ پہلی قسم کا کلام اتنا کھلا ہوا صاف جھوٹ ہے کہ اس کا جھوٹ ہونا ہر ایک کومعلوم ہے ۔یا کم از کم اس کی صداقت کا علم نہیں ۔ ٭ دوسری قسم کا کلام سچا ہے، مگر اس میں کوئی چیز موجب طعن نہیں ہے۔ بلکہ وہ باتیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ان فضائل و محاسن میں شامل ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے آپ کا خاتمہ فرمایا ہے۔ مگر اس بات کا کیا علاج کہ شیعہ فرط ضلالت و جہالت کی بنا پر نقلی و عقلی حقائق کو قبول نہیں کرتے۔ چنانچہ وہ ان امور کی جانب متوجہ ہوتے ہیں جو وقوع پذیر ہو چکے ہیں اور وہ اس بات کو جانتے بھی ہیں ، مگر اس کے باوصف کہتے ہیں کہ وہ واقع نہیں ہوئے۔ پھر جو امور وقوع میں نہیں آئے اور ان کے عدم و قوع سے وہ آگاہ بھی ہیں بکمال دیدہ دلیری کہتے ہیں
Flag Counter