Maktaba Wahhabi

445 - 702
دادا بھائیوں سے اولیٰ ہوگا۔ مزید برآں یہ کہ بھائی اگر دادا کے لیے بیٹوں کی منزلت پر ہوتے تو اس کے بیٹے بھی پھر ان کے بھائی شمار ہوتے۔ لیکن ایسا نہیں ہے؛ پوتے بیٹوں کی منزلت پر نہیں ہوتے۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ باپ کے بیٹے ہونے کی وجہ سے انہیں تقدیم نہیں ہوگی۔ کیا آپ دیکھتے نہیں کہ بیٹا دادا کی نسبت زیادہ اولی ہوتا ہے۔تو اس کا پوتا بھی اسی منزلت پر ہوگا؟ مزید برآں یہ کہ دادی ماں کی طرح ہوتی ہے۔ تو واجب ہوتا ہے کہ دادا بھی باپ کی طرح ہو۔ اس لیے بھی کہ دادا کو باپ بھی کہا جاتا ہے۔یہ قول حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی دو روایات میں سے ایک ہے۔ ۲۔ دوسرا قول یہ ہے کہ دادا بھائیوں کے ساتھ ورثہ میں شریک ہوگا۔ حضرت عثمان، علی و زید اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم اسی کے قائل ہیں ، مگر اس کی تفصیل میں ان کے مابین بڑا اختلاف پایا جاتا ہے، امام مالک و شافعی و احمد رحمہم اللہ اوراس قول کو ماننے والے جمہور حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے نظریہ کو درست تسلیم کرتے ہیں ۔ جیسے حضرت امام مالک؛ امام شافعی ؛ امام أحمد رحمہم اللہ ۔ اوردادا کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جس نظریہ کا اظہار کیا ہے، ابن ابی لیلیٰ کے سوا فقہاء میں سے کوئی بھی اس کا قائل نہیں ہے؛ آپ اس قول کے مطابق فیصلہ کیا کرتے تھے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اس بارے میں مختلف اقوال منقول ہیں ۔ اگرپھلا قول صحیح اور حق ہے تو پھریہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔اور اگر دوسرا قول صحیح ہے توبھی یہ عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ [دوسرا قول حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا ہے اور آپ] حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی عدلیہ کے قاضی القضاۃ تھے۔اورحضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ کے فیصلوں کو نافذ کیا کرتے تھے ۔[حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ] حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دادا کے بارے میں اپنا فیصلہ ورع پر مبنی ہے ۔ اس لیے کہ آپ یہ سمجھتے تھے کہ دادا باپ کی طرح ہے۔ جیسا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا قول ہے ۔ مگر جب خود دادا بن گئے تو اس میں بھی ورع اختیار کرتے ہوئے یہ معاملات حضرت زید رضی اللہ عنہ کے سپرد کردیے ۔ باقی رہا آپ کے بارے میں راوی کایہ قول کہ:’’ قَضٰی فِیْہَا بِمِائَۃِ قَضِیَّۃٍ ۔‘‘ اگر یہ درست بھی ہو تو راوی کا اس سے یہ مطلب نہیں کہ ایک ہی مسئلہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے سو اقوال ہیں ۔ کیونکہ یہ ممکن ہی نہیں ، جد کے مسئلہ میں جو نزاع پایا جاتا ہے۔ وہ ماں ، بہن اور دادا کے مسئلہ سے زیادہ نہیں جسے علم وراثت میں ’’ مسئلۃ الخرقاء ‘‘کہتے ہیں ؛ حالانکہ اس میں صرف چھ اقوال ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ راوی کی مراد دادا کے سو حوادث و واقعات ہیں ، دادا کے بارے میں فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے اقوال دو یا تین سے ہر گز زیادہ نہیں ۔دادا کے بارے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی مختلف اقوال منقول ہیں ۔ علمائے فرائض سے یہ بات پوشیدہ نہیں ۔ زیادہ قرین قیاس بات یہ ہے کہ سو اقوال والی روایت کذب کی آئینہ دار ہے۔ اس لیے کہ ایسی صورت شاذو نادر ہی پیش آتی ہے کہ میت کے بھائی بھی زندہ ہوں اور دادا بھی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ صرف دس سال منصب خلافت پر فائز رہے تھے اس قدر مختصر زمانہ میں ایسے سو واقعات کیوں کر پیش آسکتے تھے، علاوہ
Flag Counter