Maktaba Wahhabi

440 - 702
یہی وجہ ہے کہ فقہاء کہتے ہیں : وہ شبہ جس کی وجہ سے حد ساقط ہوتی ہے وہ اعتقاد کا شبہ ہے۔یا ملکیت کا شبہ ہے۔ پس جس نے نکاح کیا؛ اوروہ اعتقاد رکھتا تھا کہ اس کے ساتھ وطی جائز ہے؛ تو اس پر کوئی حد نہیں ہوگی۔ اگرچہ وہ باطن میں اس پر حرام ہی کیوں نہ ہو۔ہاں اگر اسے حرام ہونا معلوم ہو ؛ لیکن سزا کا بھلے علم نہ ہو تو اس پر حد نافذ کی جائے گی۔ جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ پر حد نافذ کی؛ انہیں زنا کے حرام ہونے کا علم تھا؛ مگر اس کی سزا کا علم نہ تھا کہ شادی شدہ زانی کو سنگسار کیا جاتا ہے۔ تونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے رجم کردیا۔کیونکہ اسے اس فعل کے حرام ہونے کا علم تھا۔ اگرچہ اس فعل کی سزا رجم کا علم نہ بھی تھا۔ یہاں پر یہ بیان کرنامقصود ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کیا کرتے تھے۔اور جو کوئی آپ کے سامنے حق بیان کرتا آپ اسے قبول کرتے تھے۔اس کی دو وجوہات ہیں : پہلی وجہ:....آپ کے لیے اس معین واقعہ میں مناط الحکم واضح ہوجاتا؛جسے وہ جانتے ہوتے ۔ جیسا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جب فرمایا کہ : ’’ یہ زناکے حرام ہونے کے حکم سے جاہل ہے ۔‘‘ یہاں پر حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے عام حکم نہیں بیان کیا۔بلکہ اس متعین قضیہ کے بارے میں انہیں بتایا کہ یہ عورت اس حکم کی اہل ہے۔ایسے ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول کہ : یہ مجنون ہے۔اس کا شمار بھی ایسے ہی قضایا میں ہوتا ہے۔ توآپ نے اس کے مجنون ہونے کے بارے میں یا حامل ہونے کے بارے میں خبردی۔ [1]
Flag Counter