Maktaba Wahhabi

432 - 702
حالانکہ خضر کا مرتبہ آپ سے فروتر تھا۔موسی علیہ السلام اورخضر کے مابین جوفرق ہے وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ان کے اشباہ و امثال صحابہ کے مابین فرق سے بہت زیاہ ہے۔ حضرت خضر کے وہ علوم جن کی وجہ سے موسی علیہ السلام کو ان کے پاس جانا پڑا؛ وہ ان علوم کی بنا پر موسی علیہ السلام کے قریب بھی نہ تھے مبادا کہ آپ سے افضل ہوتے ۔بلکہ آپ کے متبعین انبیاء جیسے حضرت ہارون ‘حضرت یوشع اورحضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہم السلام سے بھی افضل نہ تھے۔ جب کہ موسی علیہ السلام خضر سے افضل تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جو بات کہی تھی وہ ایک فاضل مجتہد کہہ سکتا ہے اس لیے کہ مہر میں اﷲکا بھی حق ہے اور یہ سودا بازی کی قسم کی کوئی چیز نہیں ۔اس لیے کہ مال کو مباح کرنے سے وہ مباح ہوجاتاہے ۔اور اسے بلا عوض خرچ کرنا جائز ہوجاتا ہے۔ جب کہ شرمگاہ مباح سمجھنے سے مباح نہیں ہوجاتی۔اورانبیاء کے علاوہ باقی لوگوں کا بغیر مہر کے نکاح نہیں ہوسکتا۔اس پر مسلمانوں کا اتفاق ہے۔ جب بغیر مہر کے نکاح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں سے ہے۔لیکن مہر کی مقدار مقرر کیے بغیر عقد نکاح ہوسکتاہے ۔ اس صورت میں مہر مثل لازم آتا ہے ۔ [یعنی جتنا مہر اس عورت کی خاندانی خواتین کا ہو‘ اتنا مہر اسکا بھی ادا کیا جائے گا]۔ اگر شوہر بیوی کا مہر ادا کرنے سے پہلے مر جائے ؛ تواس صورت میں صحابہ اور فقہاء کے دو قول ہیں : پہلا قول:....اس پر کچھ بھی واجب نہیں ہے ۔یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے متبعین کا مذہب ہے ۔امام مالک اور امام شافعی رحمہم اللہ نے ایک قول میں اسے ہی اختیار کیا ہے ۔ دوسرا قول :....اس پر مہر مثل واجب ہے ۔ یہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا مذہب ہے ۔یہی قول حضرت امام ابو حنیفہ ‘ امام احمد اور دوسرے قول میں امام شافعی رحمہم اللہ کا مسلک ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بروَع بنت واشق رضی اللہ عنہا کے بارے میں مہر مثل کا فیصلہ کیا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کاقول بھی خلاف نص نہیں ہے ۔ آپ اس انسان سے بہت بہتر ہیں جس کا قول نصوص کے خلاف ہو ۔ جب مہر میں اللہ تعالیٰ کا حق بھی پایا جاتا ہے تو اس کے لیے ممکن ہے کہ کوئی شرعی حد مقرر کی جائے۔جیسے زکاۃ اور فدیہ وغیرہ کی حد ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ امام مالک اور امام ابو حنیفہ رحمہم اللہ کے نزدیک مہر کی سب سے کم مقدار چوری کا نصاب ہے۔ اگر یہ جائز ہے کہ کم سے کم مہر کی مقدار مقرر کی جائے تو پھر یہ بھی جائز ہے کہ زیادہ سے زیادہ مہر کی مقدار مقرر کی جائے۔ خلاصہ کلام ! اگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے اجتہاد کو نافذبھی کردیتے تو یہ اجتہاد ان دوسرے بہت سارے اجتہادات سے کمزور نہ ہوتا جنہیں دوسرے لوگوں نے نافذ کیا ہے۔توپھر آپ کے لیے یہ اجتہاد نافذ کرنا کیسے جائز نہ ہوتا؟ باقی رہ گیا معاملہ اس آیت کی تفسیر کا ؛ ارشاد باری ہے:﴿وَاٰتَیْتُمْ اِحْدٰہُنَّ قِنْطَارًا﴾۔اگر تم نے ان میں سے کسی ایک کو خزانہ بھی دے دیا ہو [تو اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لو]۔ بہت سارے لوگ اس کی ایسی تاویل کرتے ہیں جوکہ خود اس آیت سے واضح ہوتی ہے کہ ایسا مبالغہ کے لیے ارشاد
Flag Counter