Maktaba Wahhabi

417 - 702
’’جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ زخمی کردیے گئے تو لوگ آپ کے پاس عیادت کے لیے حاضر ہوئے ۔ان میں سے ایک ابن عباس رضی اللہ عنہمابھی تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی آخری گھڑیاں تھیں ؛ اور آپ رورہے تھے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمافرمانے لگے : اے امیر المؤمنین ! آپ کو کس چیز نے رلادیا ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ اللہ کی قسم ! میں دنیا کے افسوس پر نہیں رو رہا؛ او رنہ ہی مجھے دنیا کا کوئی شوق ہے۔ لیکن مجھے قیامت کی سختیوں کا خوف محسوس ہورہا ہے ۔‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمانے فرمایا: اے امیر المؤمنین ! اللہ کی قسم ! آپ اسلام لائے تو آپ کا اسلام لانا فتح تھی۔ پھر آپ کو امیر بنایا گیا ؛ تو آپ کی امارت بھی فتح سے عبارت تھی۔آپ نے زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیا۔ مسلمانوں کے کوئی دو آدمی بھی ایسے نہیں ہیں جن کے مابین کوئی رنجش ہو؛ تو ان کے سامنے آپ کا ذکر کیا جائے تو وہ آپ کی بات پر راضی ہوجاتے ہیں ‘ اور اس پر قناعت کر لیتے ہیں ۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ مجھے بیٹھادو ۔‘‘ جب آپ کو بیٹھادیا گیا تو آپ نے فرمایا : ’’ اپنی بات دھراؤ ۔‘‘ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمانے فرمایا : درست ہے ؛ میں دھراتا ہوں ۔ اور اپنی بات دھرا دی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ اے ابن عباس ! کیا آپ میرے لیے قیامت کے دن اللہ کے سامنے اس بات کی گواہی دیں گے ؟ آپ نے فرمایا: ہاں اے امیر المؤمنین ! میں اللہ کے ہاں آپ کے حق میں اس بات کی گواہی دوں گا ۔اور یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ یہ بھی آپ کے لیے اس بات کی گواہی دیں گے۔اس وقت علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ وہاں پر تشریف فرما تھے۔ تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بھی فرمایا : ہاں اے امیر المؤمنین ۔‘‘ [1] [رواہ ابن جوزی في مناقب عمر ۱۹۳]۔ یہ لوگ جو صبح وشام علم کی تلاش میں رہتے ہیں ؛ ان کی کسی ایک کے ساتھ کوئی غرض نہیں ہوتی۔ بلکہ کبھی کسی کے قول کو
Flag Counter