Maktaba Wahhabi

411 - 702
٭ ا س بات کا بھی احتمال ہے کہ آپ کو یہ حکم یاد نہ رہا ہو اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یاد دلا دیا تو آپ کو یاد آگیا؛ تو آپ حد نافذ کرنے سے رک گئے۔اس لیے کہ اگر آپ کی رائے یہ ہوتی کہ حاملہ کو رجم کیا جاسکتا ہے تو آپ اسے رجم کردیتے۔اور اس بارے میں کسی کی رائے کی کوئی پرواہ نہ کرتے۔اس سے قبل غامدیہ کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت موجود بھی تھی ؛ غامدیہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا کہ : وہ زنا سے حامل ہے[لہٰذا اس پر شرعی حد قائم کرکے اسے گناہ سے پاک کیا جائے ]۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جاؤ یہاں تک کہ بچہ پیدا ہوجائے۔‘‘ [اس کے بعد حدقائم ہوگی]۔[مسلم ۳؍۱۳۲۳]۔ ٭ اگر تسلیم کرلیا جائے کہ یہ مسئلہ آپ پر مخفی رہ گیا تھا؛ مگر بعد میں ظاہر ہوگیا؛ تو ایسے معاملات کی بنا پر ائمہ ہدایت کو ہدف طعن و ملامت بنانا کہاں تک قرین انصاف ہے؟حضرت عمر رضی اللہ عنہ مسلمانوں اور اہل ذمہ کی سیاست کے فرائض انجام دے رہے تھے۔آپ لوگوں کے حقوق ادا کرتے ‘اور شرعی حدود قائم کرتے ؛ اور تمام لوگوں کے مابین فیصلے کیا کرتے ۔ آپ کے دور میں اسلام خوب پھیلا۔اور اسلام کو وہ غلبہ اور شوکت نصیب ہوئی جو اس سے پہلے نہ ہوئی تھی۔ آپ ہمیشہ فیصلے کرتے اور فتوی دیتے ۔اگر آپ کے پاس وافر علم نہ ہوتا تو ہرگز ایسا نہ کرسکتے۔پھر جب آپ پر لاکھوں مسائل میں سے کوئی ایک مسئلہ مخفی رہ جائے ‘اور پھر جب واضح ہوجائے یا آپ کویاددلانے سے یاد آجائے تو اس میں عیب کی کون سی بات ہے ؟[1] حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اس سے کئی گنا مسائل مخفی رہے۔ان میں سے کتنے ہی مسائل ایسے ہیں جن کا مرتے دم تک آپ کو علم نہ ہوسکا۔ آپ کے علم و عدل اور بچوں کے ساتھ کمال رحمت کا واقعہ سنیے ! ٭ آپ بچوں کے لیے اس وقت تک وظیفہ مقرر نہیں کرتے تھے جب تک کہ وہ دودھ چھوڑ نہ دے۔ آپ فرمایا کرتے تھے اس کے لیے دودھ ہی کافی ہے۔‘‘ پھر آپ نے ایک عورت کوسنا جو کہ اپنے بچے سے قبل ازقت دودھ چھڑانا چاہتی تھی تاکہ اس کے لیے وظیفہ مقرر کیا جائے۔ جب صبح ہوئی تو آپ نے لوگوں میں منادی کرا دی : ’’بیشک امیر المؤمنین نے دودھ پیتے اور دودھ چھٹے بچے کے لیے وظیفہ مقرر کرنے کااعلان کیا ہے۔‘‘ [اس واقعہ پر غور کیجیے اور اندازہ لگائیے ]: بچے کو تکلیف دینا اس کی ماں کی طرف سے تھا؛ اس میں امیر المؤمنین کا کوئی دخل نہیں تھا۔لیکن آپ نے یہی مناسب سمجھا کہ دودھ پیتے بچوں کے لیے بھی وظیفہ مقرر کردیا جائے تاکہ لوگ اپنے بچوں کو ایذا نہ دیں ۔یہ مسلمانوں کی اولاد کے ساتھ آپ کا احسان تھا۔
Flag Counter