Maktaba Wahhabi

407 - 702
امر میں کوئی اختلاف نہیں کہ یہ مسئلہ اجتہادی تھا۔اس سے پہلے گزر چکا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی ایسا ہوا تھا آپ نے قاتلان عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص نہ لیکر شرعی حدود کو معطل کیا تھا۔اور اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ پر یہ قدح وارد نہیں ہوسکتی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر بدرجہ اولی کوئی قدح نہیں کی جاسکتی۔ جوکچھ حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہوا تھا؛وہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں ایسا کیا گیا تھا؛ اور صحابہ نے اس کی تائید کی تھی ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی وہاں موجود تھے اور انھوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تائید کی تھی۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ جب تین گواہوں پر حد قذف لگائی جا چکی تھی توابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے از سر نو پھر کہنا شروع کیا کہ اﷲ کی قسم! مغیرہ نے زنا کیا ہے۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دوبارہ ابوبکرہ رضی اللہ عنہ پر حد قذف لگانے کا ارادہ کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کی بجائے اب مغیرہ رضی اللہ عنہ کو رجم کرنا چاہئے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کامقصد یہ تھا کہ ابوبکرہ رضی اللہ عنہ ایک گواہ ہیں ، اور قبل ازیں شہادت دے چکے ہیں ۔ اب ان کی تکرار شہادت چوتھے گواہ کے قائم مقام ہے، بایں طور چار گواہ پورے ہو گئے لہٰذا رجم واجب ہے۔لہٰذا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان پر حد نہ لگائی ۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس پر رضا مند تھے کہ ان پرپہلی بار حد لگائی جائے ؛ دوسری بار نہیں ؛ ورنہ آپ پہلی بار بھی اس سے ایسے ہی منع کر سکتے تھے جیسے دوسری بار منع کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس لوگ آتے اور آپ سے مراجعہ و تکرار کرتے اور کتاب و سنت سے دلائل پیش کرتے ۔ پس عمر رضی اللہ عنہ [ جب دیکھتے کہ حق ان میں سے کسی ایک کے ساتھ ہے تو] اپنے قول سے رجوع کرتے ۔ اس لیے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کسی طرح بھی کتاب اللہ سے آگے بڑھنے والے نہیں تھے۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ: ’’ عیینہ بن حصن بن حذیفہ بن بدر آئے اور اپنے بھتیجے حر بن قیس بن حصن کے ہاں اترے۔ اور یہ ان لوگوں میں سے تھے جن کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے قریب رکھتے تھے۔ اور قراء خواہ وہ بوڑھے ہوں یا جوان عمر رضی اللہ عنہ کی مجلس کے مشیر ہوتے تھے۔ عیینہ نے اپنے بھتیجے سے کہا :اے بھتیجے !کیا امیرالمومنین کے یہاں تیری رسائی ہے؟ تو میرے لیے اجازت لے سکتا ہے؟انہوں نے کہا کہ عنقریب تمہارے لیے اجازت لوں گا۔‘‘ ابن عباس کا بیان ہے: انہوں نے عیینہ کے لیے اجازت لی، جب وہ اندر آئے تو کہا کہ: اے ابن خطاب! اللہ کی قسم! تم ہمیں نہ تو زیادہ مال دیتے ہو اور نہ ہمارے ساتھ عدل کے ساتھ فیصلہ کرتے ہو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ان پر غصہ آ گیا یہاں تک کہ قریب تھا کہ الجھ پڑیں ، تو حر نے کہا:’’ امیرالمومنین! اللہ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایاہے : ﴿خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰہِلِیْنَ﴾ [الأعراف ۱۹۹] ’’ معافی کو قبول کریں اور نیکیوں کا حکم دیں اور جاہلوں سے درگزر کیجئے۔‘‘ یہ شخص جہلاء میں سے ہے۔ اللہ کی قسم! جونہی یہ آیت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پڑھی انہوں نے اس آیت کے خلاف نہیں کیا، اور کتاب
Flag Counter