Maktaba Wahhabi

405 - 702
نیز جو کچھ ابو لؤلؤ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا ؛ وہ آپ کے حق میں کرامت ہے۔[1] لیکن یہ اس سے بڑھ کر ہے جو ابن ملجم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ کیا ؛ اورجو کچھ قاتلان حسین رضی اللہ عنہ نے آپ کے ساتھ کیا ۔اس لیے کہ ابو لؤلؤ کافر تھا اس نے ایک مؤمن کوقتل کیا ۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کفار اہل ایمان کوقتل کرتے ہیں ۔یہ شہادت ہے جو اس شہادت سے کہیں بڑھ کر ہے جس میں کوئی مسلمان کسی مسلمان کوقتل کر دے ۔نیز حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ابو لؤلؤ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے تقریباً ساڑھے بارہ سال کے بعد قتل کیا ۔تو پھر یہ کیسے پتہ چلا کیا آپ کا قتل اس بد دعا کا نتیجہ تھا جو اتنا لمبا عرصہ پہلے ہوچکی تھی۔ جب کوئی کسی مسلمان کے لیے بددعا کرے کہ اسے کوئی کافر قتل کردے ‘ تو حقیقت میں یہ اس پر بددعا نہیں ہوتی؛ بلکہ اس کے حق میں نیک دعا ہوتی ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اصحاب میں سے کسی ایک کے لیے بھی ایسی ہی دعا کیا کرتے تھے ؛ آپ فرمایا کرتے تھے :’’ یا اللہ ! فلاں کی مغفرت کردے ۔‘‘توصحابہ کرام کہتے : اے کاش یہ فائدہ ہمیں حاصل ہوا ہوتا۔ اس لیے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ان الفاظ میں دعا کیا کرتے تو وہ کچھ عرصہ میں ہی شہید ہوجاتا۔[2] اب اگر کوئی یہ کہے کہ :حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اہل صفین اور خوارج پر ظلم کیا ؛ انہوں نے حضرت پر بددعا کی ؛ ان ملجم نے جو کچھ کیا وہ اسی بددعا کا نتیجہ تھا؛ تو معقول ہونے کے لحاظ سے یہ قول پہلے قول سے کچھ بعید نہ ہوگا۔اور ایسے ہی اگر یہ کہا جائے کہ آل سفیان بن حرب نے حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ پر بددعا کی تھی ؛ اسی کے نتیجہ میں آپ کو شہید کردیا گیا ۔ فدک میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی کوئی غرض نہ تھی۔ نہ ہی آپ نے اس میں سے کچھ اپنی ذات کے لیے لیا ؛ اور نہ ہی اپنے عزیز و اقارب اور دوست احباب کے لیے کچھ لیا ۔اورنہ ہی اہل بیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس سے محروم رکھنے میں انہیں کوئی فائدہ تھا۔ بلکہ آپ اہل بیت کو عطیات سے نوازنے میں باقی تمام لوگوں پر مقدم رکھا کرتے تھے۔یہاں تک کہ
Flag Counter