Maktaba Wahhabi

400 - 702
اہل ایمان ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سوا کسی کو خلیفہ تسلیم نہیں کرتے۔[1] صحیح بخاری میں قاسم بن محمد سے روایت ہے؛ آپ فرماتے ہیں : سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا ’’ ہائے میرا سر! ‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا: ’’ اگر یہ واقعہ میری زندگی میں پیش آیا تو میں آپ کے حق میں دعائے مغفرت کروں گا۔‘‘ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: مقام افسوس ہے اﷲ کی قسم! آپ چاہتے ہیں کہ میں مرجاؤں ۔ اگر میں مرگئی تو آپ اسی روز اور شادی کرلیں گے۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ میرے سر میں تکلیف ہے، ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ان کے بیٹے کو بلا کر ایک عہد نامہ تحریر کرنا چاہتا ہوں ۔ مبادا کوئی خلافت کا حریص اٹھ کھڑا ہو۔ حالانکہ اﷲتعالیٰ اور اہل ایمان ایسا نہیں چاہتے۔‘‘[2] صحیح مسلم میں ابن ابی ملیکہ سے مروی ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے دریافت کیا گیا کہ اگر آپ کسی کو خلیفہ مقرر کرنا چاہتے تو کسے مقرر کرتے ؟ آپ نے جواباً فرمایا: ابوبکر رضی اللہ عنہ کو، پھر پوچھا گیا، ان کے بعد کس کو ؟‘‘ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا:’’ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ‘‘ پھر پوچھا گیا ان کے بعد کس کو؟ کہا ’’ ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو۔‘‘[3] حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس بات کا پتہ نہ چل سکا کہ آپ یہ حکم شدت مرض کی وجہ سے دے رہے ہیں یا حسب معمول (بقائمی ہوش و حواس) صحیح حالت میں یہ بات فرما رہے ہیں ۔ انبیاء علیہم السلام بیمار پڑ سکتے ہیں ۔اس لیے کہ مرض اور نبوت و رسالت کے مابین کوئی منافات نہیں ۔ اسی لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ آپ کیا فرما رہے ہیں ؟ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ شک میں مبتلا تھے اور جزم و وثوق سے یہ بات نہیں فرما رہے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ شک میں مبتلا ہو سکتے ہیں کیوں کہ نبی کے سوا کوئی شخص معصوم نہیں ۔ بنابریں وہ اس بات کو جائز سمجھتے تھے کہ آپ شدت بخار کی وجہ سے یہ گفتگو فرما رہے ہوں ۔ اس لیے کہ اس وقت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیمار تھے۔آپ کو پتہ نہ چل سکا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ کلام شدت مرض کی وجہ سے ہے جیسا کہ مریض کے ساتھ حالت مرض میں ہوتا ہے ؛ یا آپ کا عام عرف کے مطابق کلام تھا جس کی اطاعت کرنی واجب تھی۔ایسے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول بھی شک پر مبنی تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فوت نہیں ہوئے۔ یہاں تک کہ دلیل و برہان سے آپ کی وفات ثابت ہو گئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہ عہد نامہ لکھنے کا ارادہ رکھتے تھے جس کا ذکر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہوچکا تھا۔ جب آپ نے دیکھا کہ اب لوگ شک میں مبتلا ہو گئے ہیں تو آپ نے سوچا کہ اب یہ عہد نامہ لکھنے سے بھی شک کا ازالہ نہ ہو گا۔ لہٰذا اب اس کے لکھنے کا کچھ فائدہ نہیں ۔ آپ یہ بھی جانتے تھے کہ اﷲتعالیٰ حسب ارادہ ان کو کسی شخصیت پر جمع کردیں گے جس کا اظہار آپ نے ان الفاظ میں کیا:’’وَیَابَی اللّٰہُ
Flag Counter