Maktaba Wahhabi

39 - 702
اپنی اولاد کے بارے میں اتنا خوف محسوس ہوتاہے کہ اتنا خوف اپنی جان کے بارے میں محسوس نہیں ہوتا۔ اگر یہ کہاجائے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے جو فضائل صحیح سند کے ساتھ ثابت ہیں ؛ جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان : ’’ کل میں یہ جھنڈا ایسے آدمی کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے ‘ اور اللہ اوراس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں ۔‘‘ اور حدیث : کیا آپ اس بات پر راضی نہیں ہے کہ آپ کومجھ سے وہی نسبت ہو جو حضرت ہارون کو موسیٰ علیہ السلام سے تھی۔‘‘ اور یہ حدیث: ’’یا اللہ ! یہ بھی میرے اہل بیت ہیں ۔ان سے پلیدی کو دور کردے ‘ اور انہیں بالکل پاک کردے ۔‘‘ سوال :....اگر یہ کہا جائے کہ : یہ باتیں آپ کے خصائص میں سے نہیں ہیں ؛ بلکہ ان میں دوسرے لوگ بھی آپ کے شریک اور حصہ دار ہیں تو پھر بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے یہ تمنا کیوں کی تھی کہ ایک کاش ! یہ مقام اسے مل جاتا ۔جیسا کہ حضرت سعد اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما سے منقول ہے ۔ جواب:....اس کا جواب یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظاہراً و باطناً حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مومن ہونے کی شہادت دی تھی۔اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے موالات کا اثبات اور آپ کے لیے اہل ایمان کی محبت وموالات کا وجوب تھا۔ اس میں ان نواصب کا رد ہے جو آپ کے کافر یا فاسق ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں ۔ اوراسلام سے خارج گروہ خوارج پر رد ہے ؛ جو لوگوں میں سب سے بڑھ کر عبادت گزار تھے؛ جن کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’ تم ان کی نماز کے مقابلہ میں اپنی نمازاوران کے روزہ کے مقابلہ میں اپنے روزے ؛ اور ان کی تلاوت قرآن کے مقابلہ میں اپنی تلاوت کو حقیر سمجھوگے۔وہ قرآن پڑھیں گے، جو ان کے حلق سے تجاوز نہ کرے گا۔ دین سے وہ ایسے نکل جائے گی، جیسے تیرکمان سے نکل جاتا ہے ؛ تم انہیں جہاں کہیں بھی پاؤ تو قتل کر ڈالو۔‘‘[1] یہ خوارج حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کافر اور فاسق کہتے تھے ؛ اور آپ کو قتل کرنا حلال اور مباح سمجھتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ان خوارج میں سے ہی ایک شخص نے آپ کو قتل کردیا تھا۔اس قاتل کا نام عبد الرحمن بن ملجم المرادی تھا۔ حالانکہ یہ انسان لوگوں میں سب سے بڑا عبادت گزار تھا۔
Flag Counter