Maktaba Wahhabi

379 - 702
ایسے ہی شیعہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر اعتراض کرتے ہیں کہ جب عبید اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ نے ہرمزان کو قتل کردیا تو انھوں نے عبید اﷲ سے قصاص نہ لیا۔ اس کا یہی جواب ہے کہ آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرح معذور تھے۔[1] اگر کوئی یہ کہے کہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص لینے میں معذور تھے۔اس لیے کہ قصاص لینے کی شرائط پوری طرح نہیں پائی جاتی تھیں ۔ ایسا یا تو اس وجہ سے تھا کہ آپ متعین قاتلوں کو نہیں جانتے تھے۔یا پھر اس کی یہ وجہ تھی کہ قاتلین بڑی قوت اورطاقت والے تھے۔ یا پھر اس طرح کا کوئی دیگر عذر بھی ہوسکتا ہے۔ تو کہا جائے گا کہ : یہی حال مالک بن نویرہ کے قتل کے متعلق بھی تھا ؛ اس میں بھی پوری شروط نہیں پائی جاتی تھیں ۔اور ہرمزان کے قاتل کو بھی شبہ کی وجہ سے قتل نہیں کیا گیا ؛ کیونکہ شبہات کی وجہ سے حد نافذ نہیں کی جاسکتی۔ اگر شیعہ کہیں کہ : حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کا مشورہ دیا تھا ‘ اور ایسے ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عبید اللہ بن عمر رحمہ اللہ کے قتل کرنے کا مشورہ دیا تھا ۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ : حضرت طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہمانے بھی قاتلان عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ حالانکہ جن لوگوں نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو مشورہ دیا تھا ان کے جواب میں ایسی دلیل پیش کی گئی جس کے سامنے انہوں نے سر تسلیم خم کرلیا؛ اس کی وجہ یہ تھی کہ حق آپ کے ساتھ تھا؛ اورایسے معاملات میں اجتہاد جائز تھا۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قتل کا بدلہ لینے کا مشورہ نہ مانا تو ان کے او رفریق مخالف [یعنی مشورہ دینے والوں ] کے مابین جنگیں برپاہوئیں ۔ان سے کوئی بھی انسان لا علم نہیں ہے۔ جنگ صفین اور جنگ جمل کے مقابلہ میں قاتلان عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کرنا بہت آسان تھا۔اگر یہاں پرآپ کے لیے اجتہاد جائز تھا؛ تو پھر ابو بکر و عثمان رضی اللہ عنہما کو بھی بدرجہ اولی اجتہاد کا حق حاصل تھا۔ اگر شیعہ کہیں کہ:’’ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مباح الدم تھے ۔‘‘ تو ان کے جواب میں کہا جائے گاکہ : اس میں کوئی بھی شک نہیں کرسکتا کہ مالک بن نویرہ کا مباح الدم ہونا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مباح الدم ہونے کی نسبت زیادہ واضح تھا۔بلکہ مالک بن نویرہ کے بارے میں معصوم الدم ہونا ہی معلوم
Flag Counter