Maktaba Wahhabi

359 - 702
ہے کہ یہ صاف جھوٹ ہے۔اہل علم مؤرخین اورمحدثین میں سے کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ حضرت ابو بکراور عثمان رضی اللہ عنہما حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے لشکر میں شامل تھے۔البتہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں روایات میں آتا ہے۔ ٭ نیزنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو جیش اسامہ رضی اللہ عنہ میں کیوں کر بھیج سکتے تھے جب کہ مرض وفات میں آپ نے انھیں نمازیں پڑھانے کے لیے امام مقرر کیا تھا۔آپ کی مرض کی ابتداء جمعرات والے دن سے ہوئی ۔ پھر آنے والی جمعرات اور اس کے بعد پیر تک نقل متواتر کے مطابق ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بارہ دن تک نماز پڑھائی۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری میں جناب ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک یا دو نمازیں نہیں پڑھائیں ‘ اورنہ ہی صرف ایک یا دو دن امامت کی ہے؛ حتی کہ اس سے رافضی دعوی میں تلبیس کا موقع پیدا ہو جائے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے بغیر آپ کو آگے کردیا تھا۔بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کی پوری مدت آپ ہی نمازیں پڑھاتے رہے۔ لوگوں کا اتفاق ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات والی مرض میں لوگوں کو نماز نہیں پڑھائی۔ اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی دوسرا ان کا امام بھی نہیں بنا۔آپ نے کئی دن تک لوگوں کو نمازیں پڑھائیں ۔ان میں سب سے کم جو تعداد بتائی جاتی ہے ‘ وہ سترہ نمازوں کی ہے[کہ آپ نے لوگوں کو سترہ نمازیں پڑھائیں ]۔ آپ نے جمعرات کو لوگوں کو عشاء کی نماز پڑھائی۔ اور جمعہ کا خطبہ بھی آپ نے دیا۔ اس بارے میں صحیح احادیث تواتر کے ساتھ منقول ہیں ۔پھر آپ پیر کے دن فجر کی نماز تک لوگوں کو نمازیں پڑھاتے رہے۔ سوموار کے دن علی الصبح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ ہٹا کر دیکھا کہ لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں نماز پڑھ رہے ہیں ۔ جب لوگوں نے آپ کو دیکھا تو قریب تھا کہ اپنی نمازمیں فتنہ میں پڑجائیں ‘ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ پردہ نیچے گرا دیا ؛ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری کام تھا۔پھر پیر کے دن ہی زوال کے قریب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوگیا۔ [إنا للّٰہ و إنا إلیہ راجعون ۔ إنک میت و إنہم میتون ] یہ بھی کہا گیا ہے کہ: آپ نے اس سے کہیں زیادہ نمازیں پڑھائیں ۔پہلے جمعہ سے آپ نے نماز پڑھانی شروع کی۔ اس لحاظ سے بیماری کی پوری مدت آپ نے ہی نماز پڑھائی ۔ سوائے ایک وقت کی نماز کے ۔ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیماری میں کچھ افاقہ محسوس کیا۔ آپ آگے بڑھے اور حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو اپنی دائیں جانب کیا ۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کرتے تھے اور لوگ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی اقتداء کررہے تھے۔ سوموار کے دن علی الصبح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پردہ ہٹا کر دیکھا کہ لوگ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اقتداء میں نماز پڑھ رہے ہیں ۔اس وقت آپ کا چہرہ مبارک یوں چمک رہا تھا جیسے قرآن کا ورق۔جب آپ نے لوگوں کوابوبکر رضی اللہ عنہ کے پیچھے جماعت کے ساتھ نماز پڑھتے دیکھا تو اس سے بہت خوش ہوئے۔[1] اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد میں نہیں دیکھا
Flag Counter