Maktaba Wahhabi

357 - 702
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے: حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’اﷲ کی قسم! میں چاہتا ہوں کہ میں (انسان ہونے کے بجائے) ایک درخت ہوتا جسے کاٹ دیا جاتا۔‘‘ [مسند احمد ۵؍۱۷۳] ابو نعیم رحمہ اللہ نے حلیۃ الأولیاء میں نقل کیا ہے: ’’حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ’’اگر مجھے جنت و دوزخ کے درمیان کھڑا کرکے کہا جاتا کہ تم ان دونوں میں سے کسی ایک میں جانا چاہتے ہو یا راکھ ہونے کو پسند کرتے ہو تو میں راکھ ہو جانے کو ترجیح دیتا۔‘‘ [حلیہ ۱؍۱۳۳] حضرت مسروق رحمہ اللہ فرماتے ہیں : حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی نے کہا :میں نہیں چاہتا کہ میں اصحاب یمین میں سے ہوجاؤں ‘ بلکہ میں چاہتا ہوں کہ میں اصحاب مقربین میں سے ہوجاؤں ۔ تو حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’ لیکن یہاں ایک ایسا آدمی بھی ہے جو چاہتا ہے کہ اگر وہ مر جائے تو اسے دوبارہ اٹھایا ہی نہ جائے۔‘‘ اس سے مراد خود حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اپنی ذات تھی۔‘‘ اس موضوع میں بڑا طویل کلام ہے کہ کیا ایسے کہنا مشروع ہے یا نہیں ؟ اس کی تفصیل کا کوئی دوسرا موقع دیکھیں گے۔ لیکن کسی انسان کی زبان سے اللہ تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے نکلنے والا کلام اس کے ایمان پر دلالت کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے اس خوف زدہ کی مغفرت کردی تھی جس نے اپنے گھر والوں کو حکم دیا تھا کہ : ’’ جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا دینا ۔اور زیادہ یاد یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:[اس نے کہا]: پھر میری راکھ بنانا۔ اور آدھی راکھ ہوا میں اڑا دینا ۔ اور آدھی راکھ سمندر میں پھینک دینا ۔کیونکہ میں نے اللہ کے پاس کوئی نیکی نہیں بھیجی۔ اوربیشک اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ وہ مجھے بہت سخت عذاب دے۔ پھر ان سے وعدہ لیا۔ پس انہوں نے اللہ کی قسم اس کے ساتھ ایسا ہی کیا۔ تو اللہ عزوجل نے فرمایا :تجھے ایسا کرنے پر کس چیز نے برانگیختہ کیا؟ اس نے عرض کیا:اے میرے رب ! تیرے خوف نے۔تو اللہ نے اس کی مغفرت فرما دی ۔‘‘[1] جب انسان کے قدرت اورمعاد میں شک کے باوجود اس کے ساتھ جو کچھ کیا گیا ‘ اس پر اللہ تعالیٰ اپنے خوف کی وجہ سے ا س کی مغفرت کردی۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا خوف گناہوں کی بخشش کے بڑے اور اہم ترین اسباب میں سے ہے ۔
Flag Counter