Maktaba Wahhabi

347 - 702
’’ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ متفقہ رائے آپ کے انفرادی قول سے ہمیں زیادہ عزیز ہے۔‘‘ [1] حضرت علی رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: ’’خلفاء سابقین کے زمانہ میں تم جس طرح فیصلے کیا کرتے تھے اب بھی کرتے رہو۔ میں اختلاف کو ناپسند کرتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ لوگ یا تو ایک جماعت بن جائیں یا میں بھی اپنے اصحاب و رفقاء کی طرح موت سے ہم کنار ہو جاؤں ۔‘‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی رعایا اکثر آپ کی مخالفت اورنافرمانی کیا کرتی تھی۔لوگ آپ کو ایسے مشورے دیا کرتے جس میں آپ کی رائے ان کے خلاف ہوتی؛ [آپ بھی ان کی مخالفت کرتے] پھر آپ کو پتہ چلتا کہ ان کی رائے درست ہے۔ حضرت حسن رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کوکئی امور میں مشورہ دیا۔مثلاً آپ نے مشورہ دیا تھا کہ بیعت حاصل کیے بغیر مدینہ سے باہر نہ نکلیں ۔ اور کوفہ نہ جانے کا بھی مشورہ دیا تھا۔صفین کے موقع پر جنگ نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ اوریہ کہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو معزول نہ کریں ۔ان کے علاوہ کئی امور ایسے ہیں جن میں آپ نے مشورہ دیا تھا۔ کوئی عقل مند آدمی اس سے اختلاف نہیں کر سکتا کہ حضرت ابوبکر و عمروعثمان رضی اللہ عنہم کے زمانہ میں حالات جس طرح منظم تھے یہ انتظام و انصرام حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں مفقود تھا۔اگر یہ سب کچھ کمال حکمران اور کمال رعیت کی وجہ سے تھا تو پھر سابقہ خلفاء رضی اللہ عنہم اور ان کی رعیت افضل ٹھہرے۔ اگر یہ صرف والی یا حکمران کا کمال تھا تو بھی ان سابقہ خلفاء کے حق میں یہ فضل وکمال زیادہ بلیغ ہے۔ اور اگر ایسا رعیت میں نقص کی زیادتی کی وجہ سے تھا تو پھر مطلب یہ ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی رعیت حضرت ابو بکرو عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کی رعیت کی نسبت بہت زیادہ ناقص تھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی رعیت جوآپ کے ساتھ مل کر جنگیں لڑ رہی تھی؛ اور آپ کی امامت کا اقرار کرتی تھی؛ ان سے خلفاء ثلاثہ کی امامت کا اقرار کرنے والی رعیت زیادہ افضل تھی۔ تو اس سے لازم آیا کہ سابقہ تین خلفاء میں سے ہر ایک خلیفہ افضل ہو۔ مزید برآں جیسا نظم و ضبط حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور میں حاصل ہوا؛ ایسا نظم و ضبط حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاں نہیں تھا۔ اس سے لازم آتاہے کہ حضرت امیر معاویہ کی رعیت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی رعیت سے افضل ہو۔ امیر معاویہ کی رعیت شیعان عثمان رضی اللہ عنہماکہلاتے تھے۔ان میں وہ نواصب بھی تھے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض و نفرت رکھتے تھے۔ پس شیعان عثمان رضی اللہ عنہ شیعان علی رضی اللہ عنہ سے افضل ٹھہرے۔ پس ہر لحاظ سے یہ لازم آتا ہے کہ خلفاء ثلاثہ رضی اللہ عنہم حضرت علی رضی اللہ عنہ سے افضل ہوں ۔ اور اس سے رافضیوں کے مذہب کا فساد بھی لازم آتا ہے ۔ اس لیے رافضی دعوی کرتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خلفاء ثلاثہ سے افضل ہیں ۔ اور وہ شیعہ جوآپ کے ساتھ مل کر برسر پیکار رہے ؛ وہ ان لوگوں سے افضل تھے جنہوں نے سابقہ تین خلفاء رضی اللہ عنہم کی بیعت کی تھی۔ اصحاب معاویہ رضی اللہ عنہ کی تو بات ہی بہت دور کی ہے۔سبھی لوگ
Flag Counter