Maktaba Wahhabi

319 - 702
اور جس نے یہ کہا کہ اس نے بذاتِ خود ندا نہ دی تھی بلکہ اس نے درخت میں ندا کو پیدا کیا تھا ؛تو اس قول سے خود درخت وغیرہ کا یہ کہنا لازم آیا کہ ’’اِنِّیْ اَنَّا اللّٰہُ‘‘ (بے شک میں ہی اللہ ہوں )۔ اور یہ لوگوں کے اس قول کی طرح نہیں کہ جب بادشاہ ندا کرنے کا حکم دیتا ہے کہ منادی کی ندا کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ ’’امیر نے ندا کی۔‘‘ کیونکہ امیر کا منادی یہ ندا کرتا ہے کہ امیر نے یہ یہ حکم دیا ہے اور سلطان نے یہ یہ فرمان جاری کیا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ نہ کہ وہ یہ کہتا ہے کہ میں تمھیں اس بات کا حکم دیتا ہوں اور اگر وہ ایسے کہے تو لوگ اس کی خبر لیں ۔ یہاں منادی نے موسیٰ علیہ السلام کو یہ کہا ہے: ﴿اِنَّنِیْٓ اَنَا اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَافَاعْبُدْنِیْ﴾ (طہ: ۱۴) ’’بے شک میں ہی اللہ ہوں ، میرے سوا کوئی معبود نہیں ۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿اِنِّیْٓ اَنَا اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَo﴾ (القصص: ۳۰) ’’بلاشبہ میں ہی اللہ ہوں ، جو سارے جہانوں کا رًب ہے۔‘‘ اگر یہ پیغام فرشتے بھی رب تعالیٰ کی طرف سے دے رہا ہو تو اسے بھی ایسا کہنا جائز نہ ہو گا جیسا کہ ہم قرآن پڑھتے ہیں اور جب رب تعالیٰ فرشتوں کو ندا کے ذریعے حکم دیتا تو یوں فرماتا ہے۔ جیسا کہ ایک صحیح حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’جب رب تعالیٰ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرئیل علیہ السلام کو یہ ندا کرتا ہے: میں فلاں بندے سے محبت کرتا ہوں سو تم بھی اس سے محبت کرو، پھر جبرائیل آسمان میں یہ ندا کرتے ہیں : ’’اللہ فلاں سے محبت کرتے ہیں سو تم بھی اس سے محبت کرو۔‘‘[1] پس جبرئیل علیہ السلام جب آسمان میں ندا کرتے ہیں تو یہ کہتے ہیں : اللہ فلاں سے محبت کرتے ہیں سو تم بھی اس سے محبت کرو اور اللہ جب جبرئیل علیہ السلام کو ندا کرتے ہیں تو یہ فرماتے ہیں : ’’اے جبرئیل میں فلاں سے محبت کرتا ہوں ۔‘‘ اسی لیے جب فرشتوں نے جناب زکریا علیہ السلام کو ندا کی تھی تو رب تعالیٰ نے اس کو یوں بیان فرماتا: ﴿فَنَادَتْہُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَ ہُوَ قَآئِمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِ اَنَّ اللّٰہَ یُبَشِّرُکَ بِیَحْیٰی﴾ (آل عمران: ۳۹) ’’تو فرشتوں نے اسے آواز دی، وہ محراب میں کھڑا نماز پڑھ رہا تھا کہ بے شک اللہ تجھے یحییٰ کی بشارت دیتا ہے۔‘‘
Flag Counter